شام میں امریکی میزائل کی تنصیب پر روسی تشویش

روسی حملے میں دولتِ اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی تحقیقات، روس شامی حکومت کا اہم فوجی اتحاد ی ہے

ہفتہ 8 جولائی 2017

Sham Main Amrici Missile Ki Tanseeb Par Roosi Tashweesh
رمضان اصغر:
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ شام میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی اطلاعات کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔روس کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر ابغدادی 28 مئی کو کئے گئے فضائی حملے میں ہلاک ہو گیا ہے۔

حملے میں شمالی شام کے شہر رقہ میں جو کہ دولتِ اسلامیہ کا خود ساختہ دارلحکومت،دولت اسلامیہ کی کونسل کے اجلاس کو نشانہ بنایا گیاتھا۔اس سے قبل بھی متعدد بار ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔کچھ عرصے سے اس کے بارے میں ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی تھی کہ وہ کہاں ہے۔اگرچہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ گذشتہ برس کے آخر میں امریکہ کی جانب سے موصل پر حملے سے قبل تک ابو بکر البغدادی کا ایک نیا آڈیو پیغام بھی جاری کیا تھا جس میں عوام سے کہا گیا تھا کہ وہ عراقی فوج کے خلاف موصل شہر کا دفاع کریں۔

(جاری ہے)

تاہم اس پیغام کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔امریکہ نے البغدادی کی گرفتاری یا ہلاکت پر دس ملین ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا ہوا ہے۔روس نے مشرقی شام میں ایک فوجی اڈے پر امریکہ کی جانب سے راکٹ لانچرز کی تنصیب پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ دو ہمرس لانچرز جنھیں التنف میں نصب کیا جارہا ہے ان افواج کے خلاف استعمال ہوجائیں جو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑرہی ہیں۔

ان لانچرز کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہیں اردن سے التنف کے اس فوجی اڈے پر لایا گیا ہے جسے باغی اور مغربی ممالک کی افواج کے خصوصی دستے استعمال کر رہے ہیں۔گذشتہ ماہ امریکی طیاروں نے اس علاقے میں ایک حکومتی قافلے پر بمباری بھی کی تھی۔یہ حملہ اس وقت ہوا جب شامی اور ایرانی حکومت کے حمایت یافتہ ملیشیا کے ارکان کم گنجان آباد صحرائی علاقے میں موجود اپنے اڈے کی جانب بڑھ رہے تھے۔

شامی حکومت نے اسی ہفتے میں کہا تھا کہ اس نے تنف کے علاقے میں اپنا قبضہ بحال کر لیا ہے۔روسی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ ناممکن نہیں ہے کہ شامی افواج پر مستقبل میں حملے جاری رکھے جائیں اور اس بار ان کے لیے ہمرس استعمال ہوں۔ مسلسل تین برسوں میں گذشتہ برس کے دوران اسلامی شدت پسندی کے شعبے میں یورپ میں گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

یورپی پولیس کے مطابق گذشتہ برس 718 جہادی دہشت گردی کے شعبے میں گرفتار ہوئے جبکہ 2015 تک یہ تعداد 687 اور 2014 میں یہ تعداد 395 تھی۔تاہم 2015 میں حملوں کی تعداد 17 تھی جو 2016 میں کم ہو کر 13 ہو گئی۔ان حملوں میں سے چھ کا تعلق دولتِ اسلامیہ سے تھا۔اس رپورٹ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے پر تشدد حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

یورپی یونین میں دہشت گردی کی صورتحال کے حوالے سے بننے والی رپورٹ ’ای یو ٹیر رازم سچوئیشن اینڈ ٹرینڈ‘ کے مطابق یوروپول کا کہنا ہے آٹھ ممبر ممالک نے بتایا ہے کہ جہادیوں،قوم پرستوں اور دیگر گروہوں کی جانب سے 2016ء میں یورپ میں دہشت گردی کے ناکام ہونے والے ناکام بنادیے جانے والے یا کامیاب ہونے والوں حملوں کی تعداد 142 تھی ۔ رپورٹ کے مطابق 142 افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے جبکہ379 زخمی ہوئے۔

یورپی یونین کے سکیورٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ان حملوں کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ خفیہ معلومات کے لیے قریبی مشاورت کی کس قدر ضرورت ہے۔اس کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کسی بھی سرحد کا احترام یا اسے تسلیم نہیں کرتی۔ 62صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہادی سرگرمیوں میں خواتین کے کردار میں اضافہ ہورہا ہے۔رپورٹ کے مطابق مغربی میں خواتین جنگجو جہادیوں کو دہشت گردی کی کاروائی میں آپریشنل کردار ادا کرنے میں مردوں کے مقابلے میں کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مغربی ممالک میں خواتین کی جانب سے کامیاب یا ناکام کاروائیوں سے دیگر خواتین کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس سب سے زیادہ حملے کرنے والے نسلی قوم پرست اور علیحدگی پرست انتہا پسند تھے۔بائیں بازو والے گروہوں کی جانب سے ہونے والے حملوں میں بھی 2014 کے بعد سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2016 میں یہ تعداد 27 تک پہنچ گئی جن میں سے 16 حملے اٹلی میں ہوئے تھے۔


امریکہ میں11ستمبر کے حملوں کے بعد دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بنائے گئے انسداد دہشت گردی کے خصوصی قوانین کے تحت 2001 سے لے کر اب تک 125 بچوں اور 307 خواتین سمیت تین ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے شعبے میں گرفتار ہونے والی خواتین کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اعداو شمار کے مطابق 2001 میں تین جبکہ سال 2016-17 میں سب سے زیادہ 38 خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

برطانوی حکومت کے مطابق 2001 سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار ہونے والے افراد میں سب سے زیادہ ایشائی باشندوں کی ہے اب تک 1402 ایشائی نژاد افراد کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیاہے۔جبکہ1058 سفید فام425 افریقی نژاد،601 دیگر قومیتوں کے افراد اور 28 افراد ایسے ہیں جن کی قومیت واضح نہیں ہے۔ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے1686 افراد ایسے ہیں جب کی عمر تیس برس سے زیادہ ہے۔

دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے 3514 افراد میں سے 945 کے خلاف مقدمہ چلائے گیا۔جن میں سے 646 کو جرم ثابت ہونے پر سزائیں سنائی گئیں۔حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے ڈیٹا کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کئے گئے کچھ افراد کے خلاف بعد میں دیگر جرائم جیسے ڈکیتی،دھوکہ دہی اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا جیسے جرائم کے مقدمات چلائے گئے ۔

عراق کے شمالی شہر موصل میں گذشتہ برس اکتوبر کے بعد سے جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں ’داعش‘ کو غیر معمولی جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔اس وقت داعش کے خلاف مغربی موصل میں محاذ اختتامی مراحل کے قریب ہے۔داعشی جنگجو بھیس بدل کر پناہ گزینوں کے روپ میں فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق عراقی فوج،عالمی اتحادی افواج کے فضائی حملوں اور فورسز کی کاروائیوں کے نتیجے میں داعش چند ایک کالونیوں میں محصور ہو گئی ہے۔

محاذ جنگ کے اگلے مورچوں پر بارودی جیکٹیں پہنے داعشی خواتین اور کم عمر لڑکوں کو بھی دیکھا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی گردش میں ہیں موصل سے داعشی جنگجو اپنا مخصوص جنگی لباس ترک کرکے سادہ کپڑوں میں پناہ گزینوں کے روپ میں فرار ہورہے ہیں۔فرار ہونے کی کوشش کے دوران کئی جنگجوؤں کوگرفتار کیا گیا ہے۔مغربی موصل کے ایک مقامی قبائلی سردار الشیخ سعد الجبوری کا بیان ہے کہ انہوں نے داعشی جنگجوؤں کو یہ کہتے سنا کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد بھیس بدل کر پناہ گزینوں میں شامل ہونے کے بعد موصل سے نکل گئی ہے۔

اور اب وہ عراق سے باہر فرار کی کوشش کررہے ہیں۔ایک دوسرے مقامی شہری الشیخ سطام الاحمد نے بیان دیا کہ داعش کے الحسبہ شعبے میں کام کرنے والے ایک جنگجو کا واقعہ بھی سنایا جس نے اپنے بھائی کر عراقی فوج کو مخبری کرنے کے الزام میں گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ لبنان میں شام کے وہ پناہ گزین جو پہلے ہی جنگ کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں اب اس ملک میں بڑے پیمانے کے انخلا کی وجہ سے ایک بار پھر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور ان پر قرضوں کے بوجھ اور بے گھر ہونے کے احساس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

شام کے ان شہریوں کیلئے جو پہلے ہی بے گھر ہونے کے عادی ہوچکے ہیں،ایک بار پھر نقل مکانی کا وقت آگیا ہے۔اسی دوران نقل مکانی اور نئے سرے سے گھر بنانے کے مراحل سے گزرنے والے پناہ گزینوں پر قرض کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور اس کے اثرات فوری اخراجات سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہے ہیں۔ پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے ایک عہدے دار جوزف زیپاٹر کہتے ہیں کہ اگر پناہ گزینوں کو اس مقام سے کہیں بہت دور منتقل کیا جارہا ہے۔

جہاں وہ سروست رہ رہے ہیں تو وہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے،جس سے ان پر موجود قرض اور ان کی حفاظت کی صورتحال بھی متاثر ہوگی۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ مشکل حالات میں بچے بھی کام کررہے ہیں ،چھ سات سال کے بچے سکول جانے کی بجائے کام کرر ہے ہیں وادی بیکاء میں جسم فروشی بھی ایک مسئلہ ہے اس کیمپ میں پناہ گزینوں کا ایک نیا ریلہ پہنچ چکا ہے اور ان کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کی جارہی ہیں ۔

یہ انخلا رضاکارانہ بنیاد پر ہو رہے ہیں اور زیادہ تر پرامن طریقے سے ہورہے ہیں۔جرمنی کے خبر رساں ادارے ڈی پی اے، اور فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جرمن چانسلر اینگلا مرکل نے کہا کہ جب تک جرمن وزارت خارجہ افغانستان کی سلامتی کی موجودہ صورت حال کا جائزہ نہیں لے لیتی،اُس وقت تک افغانوں کی واپسی کا عمل معطل رہے گا۔کابل کے ایک سفارتی علاقے میں 31 مئی کو ہونے والے بم حملے میں 90 افرادہلاک اور لگ بھگ 400 زخمی ہوگئے تھے۔

اس بم حملے میں جرمن سفارت خانے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔لیکن پناہ گزینوں کی ملک بدری کے عمل کو عارضی طور پر روکنے کا اطلاق اُن افراد پر نہیں ہوگا جو جرائم میں ملوث ہیں یا جرمنی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔اُن افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل جاری رہے گا جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جاچکی ہیں اور وہ رضا کارانہ طور پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ایسے افغان جن کی پناہ کی درخواستیں رد ہوچکی تھیں، ماضی میں افغانستان میں سلامتی کی صورت حال کے باعث انھیں جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔لیکن گزشتہ جرمن حکومت نے فیصلہ کیا کہ افغانستان کے وہ علاقے جو محفوظ ہیں وہاں پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sham Main Amrici Missile Ki Tanseeb Par Roosi Tashweesh is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.