سرد جنگ ، ایران اور سعودی عرب
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں لیکن حال ہی میں اس کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ایساکیوں؟
بدھ 24 جنوری 2018
(جاری ہے)
( پراکسی) کے ذریعے بر سر ِ پیکار ہیں۔ شام اس کی واضح مثال ہے جبکہ سعودی عرب نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ شیعہ حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کر رہا ہے اور وہ اسے سعودی حدود پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یمن کی دلدل میں پھنسنے اور شام میں تقریباََ شکست کھانے کے بعد سعودی عرب نے بظاہر لبنان کو نیا میدان ِ جنگ منتخب کیا ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں لبنان بھی شام کی طرح انتشار کا شکار نہ ہوجائے۔ لیکن ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہاں بھی سعودی عرب کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملنے والی۔ لبنان میں ان دونوں کے درمیان کشمکش کے بیچ اسرائیل بھی بڑی آسانی سے کود سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا حزب اللہ سے پہلے سے ہی بیر چل رہاہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ہوسکتاہے کہ سعودی ولی عہد جان بوجھ کر حزب اللہ کو اسرائیل سے لڑوانا چاہتے ہوں تاکہ ایران نواز جنگجو تنظیم کو کسی طرح کمزور کیا جاسکے۔ فی الحال تو ریاض اور تہران پراکسی وار لڑ رہے ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی براہِ راست ایک دوسر ے سے لڑائی نہیں چاہتا۔ لیکن یمن کی طرف سے سعودی عرب پر پھینکا گیا ایک کامیاب میزائل سارا نقشہ تلپٹ کر سکتاہے۔ ایک جگہ جہاں یہ دونوں لڑ سکتے ہیں وہ خلیج فارس ہے ، جہاں دونوں کی بحری سرحدیں ملتی ہیں۔ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے لیے خلیج فارس میں نقل و حمل کی آزادی بہت اہم ہے اگر یہاں جنگ چھڑ گئی تو تیل کی صنعت کے لیے بے حد اہم یہ بحری گذر گاہ بند ہو جائیگی۔ اس سے امریکہ بھی جنگ میں کود سکتاہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک عرصے سے یہ سمجھتے ہیں کہ ایران مشرقِ وسطیٰ کو عدمِ تحفظ کا شکار کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سعودی قیادت ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور ولی عہد اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر ضروری قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ دوسر ی طرف سعودی عرب کی نئی مہم جوئی اس خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان فوجی طاقت کا توازن کچھ اس طرح ہے۔ایران کے پاس مسلح افواج 563000ہے جبکہ سعودی عرب کے پاس 251500 ہے۔ ایران کے پاس 1513 ٹینک ہیں اور سعودی عرب کے پاس900 ہیں۔ ایران کے پاس 6798 توپ خانہ ہے جبکہ سعودی عرب کے پاس صرف 761ہیں۔ ایران کے پاس لڑاکا جہاز 336ہیں جو کہ پرانے ہیں جبکہ سعودی عرب کے پاس 345جدید لڑاکا جہاز ہیں۔ ایران کے پاس جنگی کشتیاں194ہیں جبکہ سعودی عرب کے پاس صرف 11جنگی کشتیاں ہیں۔ ایران کے پاس آبدوزوں کی تعداد صرف 21ہے جبکہ سعودی عرب کے پاس ایک بھی نہیں۔ اسطرح دونوں کے اسباب کا بغور دجائزہ لیا جائے تو یہ بظاہر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اتنا کم اسباب ہونے کے باوجود شور شرابا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر دوسروں پر انحصار کر کے بیٹھے ہیں تو یہ ان دونوں کی خام خیالی ہے۔ اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات اور کیا ہو سکتی ہے، دونوں مسلم ممالک ہو کے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ دونوں الگ الگ مسلک کے ہیں۔ روز محشر کسی نے یہ نہیں پو چھنا کہ تم کس مسلک سے تھے۔ مسلک ان کے باپ کی جاگیر تو ہوسکتا ہے مذہب نہیں۔ اب بھی وقت ہے یہ دونوں سدھر جائیں۔اور مسلمانوں کو مزید تقسیم سے بچائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں قتل
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
مزید عنوان
Sard Jang Iran Aur Saudi Arab is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 January 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.