سال 2018 ․․․․․․․․․․․․دنیا کی قیادت روس، چین کے پاس ہوگی

2017ء میں امریکہ نے سُپر پاور کی حیثیت کھودی۔۔۔۔ واشنگٹن پوشیدہ جنگ پاکستان، روس، چین، ایران میں لڑے گا

بدھ 3 جنوری 2018

Saal 2018 Dunia ki Qyadat Russia And China K pass Huge
امتیاز الحق:
سال 2017 ء میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر دنیا کی قیادت برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ 2017ء کا سال روس اور چین کا سال قرار دیا جاسکتا ہے۔ 2018ء میں دونوں ملک دنیا کو قیادتی کردار میں لے جانے کے لئے تیاری کررہے ہیں۔ پاکستان نے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور تعاون کے حوالے سے بھارت کو خطہ میں ایک حد تک اکیلا کردیا ہے۔

جس نے امریکہ کی خطہ میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی ناکام کوشش میں سہارا بننے کی کوششیں کی ہیں جہاں چین دنیا میں زیادہ طاقتور ملک کا نیا کردار لینے کے لئے تیار رہے وہیں امریکہ کے مقابلے میں پاکستان نے باعزت اور پُر اعتماد طریقہ سے ”نومور“ کہہ کر جنوب مشرقی ایشیا میں چین کے ساتھ اپنا کردار واضح کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

سال 2017ء پاک روس تعلقات میں دونوں ملکوں کے مابین سفارتی سیاسی لحاظ سے دانشمندانہ سال رہا ہے جہاں باہمی طور پر اعتماد اور برابری کی بنیاد پر پاک روس میں پاکستانی کمانڈوز کی جنگی مشقوں کا خوشگو حیرانگی سے اختتام ہوا دونوں ملکوں نے آنے والے خطرات جس میں داعش کو عراق، وشام سے شکست کے بعد افغانستان، پاکستان، روس، ایران کے علاقوں میں پھیلا یا گیا ہے اس کے اثرورسوخ کو بڑھانے میں امریکہ کی خفیہ کاروائیوں کے تدراک کے لئے واضح طو ر پر مذکورہ مشقیں تیاری کا حصہ نہیں چین اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی تجارتی، سفارتی ، سیاسی قوت کو محدود کرنے کی پس پردہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے 19 دسمبر 2017ء پاکستان کی تاریخ میں عسکری اور جمہوریت کے لئے اہم دن تھا۔

پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی بند کمرہ اجلاس میں بریفنگ افغانستان سے پاکستان دشمنوں ، دہشت گردوں کی مددکرنے والوں کو واضح پیغام دیا گیایوں پاکستان اور امریکہ تعلقات دہشت گردی فوجی سلامتی افغان حکمت عملی مشرق وسطیٰ اور ملک کے اندرونی مسائل بارے روس، چین تعلقات کے تناظر میں باور کرادیا گیا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی طاقت کی بالادستی کو قبول نہیں کرتا خطہ میں عدم توازن کے امریکی خواب کو پورا کرنے میں رکاوٹ ہی نہیں ایک دیوار بھی ہے ۔

پاکستان نے اپنے لئے نیا کردار منتخب کرلیا ہے جس کے پیچھے 60 ہزار معصوم جانوں کا خون ایک کھرب ڈالرز سے زائد کا نقصان امریکی امداد کے باوجود جو خود اسی کی عسکری و تکنیکی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے استعمال کی گئی پاکستان کو فائدے کی بجائے نقصان میں دھکیل دیا اب پاکستان وہ ملک نہیں رہا جس کے ماضی کے جرنیل امریکی مفاد میں کام کرتے رہے۔

پاکستان نے امریکی امداد سے کم او رامریکہ نے زیادہ فوائد حاصل کئے۔ دوسری جانب دونوں بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب توجہ دی بالخصوص روس جس کی شام میں کامیابی نے دنیا کو واضح پیغام بھیجا کے روس دنیا کی اہم طاقتور ریاست بن کر ابھرارہا ہے ۔ روس نے اپنی دفاعی صلاحیت کی بنیاد پر فضائی اور سمندری کے ساتھ زمینی طاقت کے مظاہرے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو قائم کردیا ہے جس کی وجہ سے مغرب کا اس خطہ اور بالعموم عالمی سطح پر ایسا کوئی رہنما نہیں جو روسی قیادت کے سامنے مقبولیت کا دعویدار ہو۔

امریکہ کو دنیا میں بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے دنیا کو ماحولیات کے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کی ضرورت تھی لیکن وہ پیرس معاہدہ سے علیحدہ ہو گیا اور یوں مغرب ومشرق ماحولیات کے حوالے سے انسانی بقا کے لئے امریکہ کے بغیر اکھٹے ہوگئے یہ اتحاد یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پر نظر آیا جہاں امریکہ کے سوا سلامتی کونسل منتقل کرنے کے خلاف ووٹ دیا جہاں امریکہ کو ویٹو کا استعمال کرنا پڑا ۔

جنرل اسمبلی میں امریکی خطرات کے باوجود اکثریت نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا سب سے زیاہ امریکی امداد حاصل کرنے والے افغانستان عراق 128 ملکوں کے ساتھ امریکہ کے خلاف ووٹ دیا اور اس میں اسلامی وعرب ممالک نے واشنگٹن کے فیصلے کے خلاف صلح چاہنے والوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملایا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں امریکی حیثیت میں کمی آئی۔ بیت المقدس کے معاملے پر ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

جس کے جواب میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں28 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کٹوتی کردی جو کہ غلط سمت میں غلط اقدام قرار دیا گیا۔ مذکورہ رقم کو امریکی عوام کی سخاوت کا ناجائزہ فائدہ اٹھانے کا طعنہ دیا گیا حالانکہ اسی امریکی عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ٹریلین ڈالرز کی شکل میں افغانستان میں ضائع کردیا گیا ہے لیکن اس جنگ سے فائدہ امریکی جنگی اشرافیہ نے ہی اٹھایا ہے جس نے خطہ میں جنگی حالات پیدا کرکے اپنے اسلحہ کو فروخت اور دیگر غریب ملکوں سے مفادات زیادہ حاصل کئے اور امداد کم دی۔

امریکی ناکامیوں اور شاہ خرچیاں دنیا کے سامنے عیاں ہیں۔ امریکی اشرافیہ غیر ضروری اخراجات سے افغانستان میں ایک لاکھ 40 ہزار کرائے کے فوجی اور پرائیوٹ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے پوشیدہ جنگ لڑرہا ہے اب وہ اس جنگ کو داعش کے عراق وشام میں بھگوڑوں کی مدد سے پاکستان، ایران، روس، چین، کے خلاف لڑنا چاہتا ہے۔ وہ اس جنگ کو مذکورہ ملکو ں کی سرحدوں کے اندر لڑنے کی تیاری کررہا ہے اطلاعات ہیں کہ بلوچستان سے ایران پر خفیہ گروہوں سے حملہ کرایا جائیگا۔

داعش کے روسی ہلاک ہونے والوں کی بیواؤں کو جو شام سے روس منتقل کی گئیں ہیں جن کو اندرون روس اور وسط ایشیاء میں دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے سنگکیانگ کے چینی علاقے میں سلامتی کے خطرات پیدا کئے جارہے ہیں جس کے پس پردہ چینی اقتصادی قوت کوکمزور کرنا روس اور چین کی جانب سے امریکی ڈالر کی عظمت کو چیلنج کرنے دونوں کی جانب سے سونے کی خریداری وذخیرہ کو روک کر یوان کرنسی میں کاروبار اس کے تبادلے کے عمل میں رخنہ، سونے کیساتھ اپنی کرنسی کو عمل میں لانے سے روکنا، ایران کواس اعلان پر کہ وہ چین کے ساتھ تیل کی فروخت یوآن کے بدلے کریگا پابندیوں میں جکڑنا وغیرہ اقدامات کے باوجود امریکہ عالمی سطح پر روس، چین، ایران پاکستان کا راستہ روکنے کے قابل نہیں ہے۔

بیت المقدس کے معاملے پر وہ بھارت کے ذریعے روس پر دباؤ ڈالنے میں بھی معاملے پر وہ بھارت کے ذریعے روس پر دباؤ ڈالنے میں بھی ناکام رہا اور خود بھارت کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ خطہ میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ناکام امریکی خارجہ پالیسی کے باعث تنہا ہوجائے اور اسے بھی کمزور ہوتے امریکی کی حمایت کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کے برعکس پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی مخالف واضح پوزیشن کیساتھ جنوب مشرقی ایشیاء اور عالمی برادری میں اپنی ساکھ بنائی جس کے بارے تاثر تھا کہ وہ امریکی اتحادی ہے۔

پاکستان نے روس و چین سے تعلقات بہتر کرکے موجودہ دنیا کے آرڈر کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار اور حصہ ڈالا ہے۔ سال 2017ء ایک واضح سگنل کے ساتھ ختم ہوا دنیا کے بہت سے لوگ ، ممالک ، ریاستیں موجودہ امریکی ورلڈ آرڈر کو بدلنا چاہتے ہیں اور روس وچین اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کرنے کا معیار ، شرائط ، اصول پورا کرتے ہیں۔ پاکستان کی قیادت ، عوام روس، وچین کے ساتھ اپنی دوستی کو بحال و مضبوط کرینگے اور کثیر القوی دنیا کیساتھ نئے ”ملٹی پولر“ ورلڈ آرڈر کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے جو تمام دنیا کے لوگوں کے مفاد میں ہے۔

روس کی جانب سے یوروایشیاء کی پالیسی اور چین کی طرف سے ون بیلٹ ون روڈ باہمی طور پر مربوط ہوگئے ہیں مشرقی یورپ کے ممالک سودیت یونین انہدام کے بعد امریکی کارپوریٹ کلچر میں شامل کئے گئے اور اپنی معیشت کو مزید کمزور کر بیٹھے مغربی وامریکی کمپنیوں نے مشرقی یورپ کے ملکوں کی اقتصادی ومعاشی حالت کو اپنے اندر جذب کرلیا اور ان ملکوں میں اپنے ہی عوام کی سہولت و بہبود کیلئے کٹوتیاں کی جانے لگیں بگڑتی حالت کو چین نے ون بیلٹ ون روڈ پالیسی سے سہار دیا اور ایک حد تک مشرقی یورپی ریاستوں میں اعتماد پیدا کیا۔

سودیت دور میں مشرقی یورپی خطہ میں جو بہتری تھی امریکی اثرونفوذ میں آنے سے اس میں بدتری دیکھی گئی جس کا قدرتی اثر یورایشیاء کی روسی پالیسی میں نظر آتا ہے جس میں روس نے اس بات کو تقویت دی کہ روس دنیا کے تمام ملکوں میں کس قسم کا بھی نظام ہے اسے عزت واہمیت اور احترام دیتا ہے قطع نظر کسی بھی نظام کے برابری کی بنیاد پر باہمی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی نے روس کو مشرقی یورپ کے ساتھ ایشیاء میں بالخصوص شنگھائی تعاون تنظیم میں چین کے ساتھ باہمی تعاون نے ایشیاء میں توازن قوت کو بدلا ہے۔

جنوب مغربی ایشیاء میں آسیان ، بین الاقوامی”برک“ بنک جس میں ارجنٹائن ، روس، چین، انڈیا بھی شامل ہیں ڈالر کے مقابلے اور ورلڈ بنک کے متبادل کمزور ممالک کی معیشت کو اور توازن تجارت باہمی مفاد کو بڑھانے کے ضمن میں اپنی اپنی کرنسی میں کاروبار وتجارت کیلئے انتہائی اہم قدم اٹھا کر امریکی بالادستی کو کمزور کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں روس چین کی اسلامی وعرب ملکوں میں اقتصادی تعاون، دفاعی ضروریات کوپورا کرنے علاوہ ازیں امریکی کمپنیوں کے برعکس مذکورہ ملکوں کو اپنے اپنے ملکوں میں ٹیکنالوجی کی منتقلی بنیادی ڈھانچہ کی ترقی میں برابری کی بنیاد پر مدد نے مشرق وسطیٰ میں25 سال کے بعد ایک بار پھر توازن قوت کو تبدیل کردیا ہے۔

آج کے مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے کے مخالف ملک کے مابین باہمی مذاکرت کے ذریعے تعلقات میں پیدا کی گئی کشیدگیوں کو بات چیت اور پس منظر میں روس چین کی حمایت کے سبب اعتماد کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ترکی، ایران مسلک کی بجائے قومی مفاد کی بنیاد پر خطہ میں امریکی سازش کو تقسیم کرو اور لڑاؤ کی بہ نسبت صلح جوئی کیساتھ اپنے اور خطہ کے معاملات کو معمول پر لارہے ہیں۔

عالمی سطح پر روس چین امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت کو کھونے کے بعد ایک ایسی قیادتی کردار میں نمایاں ہورہے ہیں جو حقیقی معانی میں امن و استحکام اور قوموں کی ترقی میں تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔ پاکستان نے صبروتحمل اور حقیقی ادراک کے ساتھ دونوں قوتوں سے ایک ایسے وقت میں تعلقات بڑھائے ہیں جس وقت انہی ملکوں کو پسپا ہوتے امریکہ کی شدید مزاحمت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان کو اندرونی و بیرونی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے دونوں قوتوں کی طاقت کے انحصار کی بجائے اپنے اندرونی معاملات ، مسائل کے حل کیلئے عوام پر اعتماد کرنا ہوگا جس کے لئے انقلابی اقدامات کرنے ہونگے کیا پاکستان ”انقلابی“ اقدامات کیلئے تیار ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Saal 2018 Dunia ki Qyadat Russia And China K pass Huge is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.