پاکستان اور طالبان کی جائز شکایات تسلیم کرتے ہیں واشنگٹن ترجمان

روس چین قربت پاکستان کو امریکہ سے بھاگنے نہیں دیں گے۔وائٹ ہاﺅس مثبت امریکی رویہ منفی اقدام کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے

جمعرات 22 مارچ 2018

pakistan aur talban ki jaiz shakayat tasleem krty hai washington tarjuman
امتیاز الحق
پاکستان‘روس چین سفارتی تعلقات میں جوں جوں استحکام آرہا ہے اسی طرح امریکی پالیسی ساز پاکستان کیبارے میں بیانات بدل رہے ہیں قبل ازیں عالمی سطح پر امریکی فیصلے اور پالیسی واضح طور پر سامنے آگئی تھی کہ واشنگٹن حقانی گروپ کی حمایت اور اس سے منسلک طالبان گروپوں کی حمایت و تعاون بارے میں پاکستان کو باور کراچکا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے پاکستان واشنگٹن کی جانب سے دئیے گئے نئے مواقع استعمال کرے نیز اسے امریکی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی صورت میں امداد کی معظلی کے ساتھ جون میں اقتصادی پابندیوں کے ضمن میں بلیک لسٹ ہونے کے لئے تیار رہنا چاہئے پاکستان نے اس پالیسی اور فیصلے کے خلاف امریکہ کو دو ٹوک الفاظ میں واضح کرجواب دے دیا تھا کہ امریکہ کے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے حقانی و دیگر دہشت گردوں کی پاک سرزمین پر کوئی گنجائش نہیں جنہوں نے 65 ہزار قیمتی جانوں اور کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے مزید یہ کہ آپریشن ردالنساد اور دیگر آپریشنز کے ذریعے پاکستان دہشت گردی کے خلاف مسلسل جنگ کی حالت میں ہے اس کا ثبوت آئے دن بلوچستان خیبر پختونخواہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ایسی صورت میں پاکستان واشنگٹن کے مزید مطالبات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اس صورتحال میں پاکستان نے دہشت گردی کے شکار روس ایران، چین اور وسط اشیا سے اپنے تعلقات میں وسعت پیدا کی اور گزشتہ برس ماسکو اسلام آباد بیجنگ تہران اور وسط ایشیائی ممالک میں لگاتار افغان امن کا نفرنسوں میں شرکت کرکے عالمی سطح پر امن اور مذاکرات کا ایک بیانیہ تشکیل دیا اور ایک ایسے اتحاد کی جانب قدم بڑھایا جس میں مذکورہ ممالک پر افغان کے بہت سے لڑاکا گروپوں نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے امن مذاکرات میں شرکت کرکے دنیا کا پیغام دیا کہ افغانستان میں خون خزانے کی جنگ لاحاصل ہے مذاکرات ہی آخری حل ہے واشنگٹن نے مذاکرات کی بڑھتی ہوئی افادیت کے اثرات کو زائل کرنے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے فوری طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ پاکستان اور طالبان دونوں کو واشنگٹن سے جائز شکایات ہیں جنہیں امریکہ حل کرنے کا خواہاں ہیں جنوبی ایشای کے لیے امریکہ کی پرنسپل اپنی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز نے نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم یقینی طور پر پاکستان سے دور نہیں بھاگ رہے بلکہ ہم سول اور عسکری قیادت سے اہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کس طرح سے ایک ساتھ کام کرسکتے ہیں اس موقع پر انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ ہفتہ امریکہ اور پاکستان کے سینئر حکام واشنگٹن میں ملاقات کریں گے جس کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کریں گی ایلس ویلز کے اس بیان کے بعد تہمینہ جنجوعہ نے اپنا دورہ ایک روز کے لیے ملتوی کردیا اور اپنے شیڈول میں تبدیلی کردی انہیں منگل کے روز واشنگٹن پہنچنا تھا لیکن وہ بدھ کو پہنچیں گی ایلس ویلز کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں استحکام کے لئے پاکستان کا اہم کردار مدد فراہم کریگا اور ہم یقینی طور پر پاکستان سے دور نہیں جارہے بریفنگ کے دوران انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی سکیورٹی امداد کو معطلی کے باوجود اسلام آباد کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان حکومت کے ساتھ ایک عمل کا آغاز کررہے ہیں اور ہمارے پاس اعلیٰ سطح تبادلوں کا سلسلہ قبل ازیں دونوں ملکوں کے مابین امریکی قیادت کی جانب سے پاکستان کی عالمی سطح پر اہمیت و حیثیت کو کم کرنے کے لیے ہتک آمیز بیانات اور پالیسی فیصلے سامنے آئے اور پاکستان نے تاریخی طور پر امریکی قیادت کے سامنے ڈٹ کر اس کی حکمت عملی پالیسی اور فیصلوں کے مضمرات بیان کرتے ہوئے امریکی قیادت کو دو ٹوک جواب دیا کہ وہ افغانستان میں اپنی 16 سالہ جنگ کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے خود امریکہ پر ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ خطہ میں دہشت گردی کو بڑھا وا دینے علاقائی سلامتی کو خطرہ میں ڈال کر وہ وسط ایشیائی ریاستوں روس چین ایران ایسے ممالک کے لئے بھی خطرات پیدا کررہا ہے ان ممالک کی ترقی میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ وہ مغرب اور دنیا کے امن کے علاوہ خود امریکی عوام کے مفادات کو نقصان پہنچار ہا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی دباﺅ آنے کی وجہ سے امریکی افواج کے سربراہ وائٹ ہاﺅس کی انتظامیہ کی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈپٹی سیکرٹری جوہن سلیوان فوری طور پر اسلام آباد پہنچ گئیں اسلام آباد پہنچ گئیں اور پاکستان کی عسکری قیادت پر دباﺅ ڈالا کہ وہ روس چین کے اثر سے باہر نکل کر واشنگٹن کی تابعداری کرے وگرنہ امریکی امداد سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن اس کے ساتھ ایلس ویلز کو اسلام آباد بھیجا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اپنے اہم ساتھی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتے اور یہ پاکستان کو طالبان پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی مخلصانہ حمایت کو بڑھائے امریکی جنرل جوزف ووئل نے پاکستان کیساتھ فوجی تعلقات کو مثبت انداز میں لیا او ر کہا کہ ہم اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تاہم گذشتہ ہفتہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے کہا کہ ہم پاکستان کے روئیے میں ابھی تک فیصلہ کن اور واضح تبدیلی نہیں دیکھ رہے واشنگٹن میں دی گئی ایک بیک گراﺅنڈ بریفینگ کے دوران ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کہا ہم پاکستان سے دور نہیں ہورہے ہمارے فوجی اور سویلین چینلز دونوں جانب سے انتہائی زور دار مکالمہ ہونے والا ہے آیا ہم کس طرح مل کر کام کرسکتے ہیں یعنی افغانستان کے حوالہ سے اسکے استحکام میں مدد دینے کے لئے پاکستان اہم کردار کس طرح ادا کرسکتا ہے اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنوبی ایشیاءکی حکمت عملی کے تحت ہم طالبان پر فوجی دباﺅ جاری رکھیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ فوجی کوششوں کے ذریعے مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے اقتدار اعلیٰ کی حامل حکومت کی دعوت پر اپنی فوج افغانستان میں تعینات کی ہوئی ہے،
امریکی قیادت فوجی و سول حکام کے بیانات میں نرمی و سختی امریکہ کی اس منافقانہ دو دھاری پالیسی کی غمازی کرتی ہے کہ ایک جانب پاکستان اور طالبان کی شکایات کو جائز قرار دیا جارہا ہے لیکن دوسری جانب سخت بیانات و اقدام کی دھمکی اور طالبان کو مذاکرات کی دعوت دیکر افغانستان میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور طالبان سے مذاکرات ناکام بناکر اپنے عوام اور دنیا کو باور کرانا چاہتا ہے کہ امن مذاکرات میں امریکہ مخلص اور طالبان اس کی ناکامی کی ذمہ دار ہیں درحقیقت واشنگٹن کی یہ چال افغانستان میں مستقل قیام کے ضمن میں پردہ کاکام دیتی ہے طالبان کا تو پہلا مطالبہ یہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلے تب ہی وہ تیسرے ملک میں مذاکرات کرسکتے ہیں جوکہ امریکہ اس مطالبے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہوگا دوسری جانب افغانستان کے حوالہ سے امریکہ نے ایک بیانیہی گھڑا ہوا ہے کہ روس اور چین طالبان کی مدد کررہے ہیں لہٰذا وہ اس خطہ میں قیام کرنے پر مجوبر ہے اسی کے اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ ٹیلر سن کہہ چکے ہیں کہ اب دہشت گردی امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے پاکستان کا مسئلہ ہے جس کی آڑ لیکر وہ چین و روس کو روکنا چاہتا ہے اس عوامل کی روشنی میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں اپنے سوسالہ خواب کو چکنا چور نہیں کرنا چاہتا جو وہ خطہ میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے روس اور بعد ازاں چین کو وہ کردار دینے کے لئے تیار نہیں ہے جو اس کے اپنے مفادات کے خلاف ہو اس کے لیے اس نے خطہ میں نئی جنگ کی تیاری کرلی ہے اور وہ غیر روایتی جنگ ہوگی جو عراق و شام سے داعش کے جنگجوﺅں کو افغانستان میں لاکر لڑی جائیگی جس کا آغاز ہوچکا ہے اور اب تک درجنوں کاروائیوں کی ذمہ داری داعش پاکستان افغانستان اور خطہ کے دیگر ممالک میں قبول کرچکی ہے 2014 کے امریکی افوا ج اور اس کی اتحادی فورسز کی موجودگی تورابور ا،ہلمند اور علاقوں میں بے رنگی ہیلی کاپٹروں میں اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے درجنوں پرائیویٹ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے کرائے کی فوج کے ذریعے سی آئی اے موساد را ،افغان خفیہ ایجنسی کے ذریعے پاکستان میں کاروائیاں کی جارہی ہیں اور اب اس کا نیا نشانہ پاکستان کی سیاسی ابتر صورتحال میں نئے امریکی اتحادی کوپیدا کرنا ہے جو واشنگٹن کی مدد سے سول اقتدار پر قبضہ کرے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

pakistan aur talban ki jaiz shakayat tasleem krty hai washington tarjuman is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.