مسلمانوں کے مابین

اتحاد و اتفاق کا فقدان اسباب وعلاج اسلام کے احکام اور ارکان میں اجتماعیت کا سبق ملتا ہے

منگل 27 فروری 2018

Musalmano ky mabeen
علی محمد قاسمی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اتحاد و اتفاق باعث خیروبرکت اور اجتماعی عروج و ارتقاءکا موثر ترین ذریعہ ہے جبکہ انتشار و افتراق تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے،مشہور مقولہ ہے اتحاد ایک عظیم قوت ہے علامہ مراد آبادی نے اسطرح تعبیر کی ہے اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے یہ ایک حقیقت ے کہ جس قوم میں اتحاد و اتفاق ہے وہ زندہ ہے اور جو اختلاف کا شکار ہے وہ مردہ یا قریب الموت ہے،تاریخ عالم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر دور اور ہرزمانے میں وہی قومیں اپنی عظمت و سطوت کے پرچم لہراتی ہے جنہو نے آپس کے بغض و عباد اختلاف و انتشار سے دور رہ کر اپنی پوری توانائی ملکی ملی سماجی اور سیاسی اصطلاح میں صرف کی اس کے برعکس وہ قومیں جو خانہ جنگی کا شکار ہوکر مختلف جماعتوں ٹولیوں اور گروہوں میں بٹ گئیں انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں شکست اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،ہم مسلمانوں کو مذہب اسلام جس قدر اتحاد و اتفاق کا درس دینا اور تاکید کرتا ہے مثلاً اسلام کے احکام و ارکان میں اجتماعیت کا سبق ملتا ہے شرعی معمولات دینی احکامات میں اگر آپ غور و فکر کریں تو آپ خود بخود اندازہ لگالیں گے کہ اسلام کس قدر اتحاد کا درس دیتا ہے آپ روزانہ دن و رات میں ادا کئے جانے والے اہم فریضة نماز کو ہی دیکھ لیں شریعت نے فرض نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا اور باجماعت ادا کرنے میں امیر و غریب کا فرق ختم کردیا حاکم ورعایا میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی،ایک ہی صف ہی کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز نماز باجماعت کے اس طرز عمل سے احترام انسانیت کے ساتھ ساتھ اتحاد واتفاق کا بھی سبق ملتا ہے۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کی موجودہ صورتحال عالمی منظر کے تناظر میں کسی بھی صاحب نظر و فکر سے پوشیدہ نہیں مسلمانوں معاشیات اقتصادیات،سیاسیات بلکہ زندگی کے تمام اہم شعبوں میں تشویش ناک حد تک بچھڑتے جارہے ہیں عالمی تجارتی منڈیوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی جارہی ہے آپس کے اختلافات و انتشار نے انہیں کھوکھلا کرڈالا ہے تمام تر معدنی ذخائز ہونے کے باوجود دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں سقوط بغداد افغانستان کی تباہی و بربادی لیبیا اور شام کی حالت زار اس کی واضح مثالیں ہے اب شاید بیت المقدس کی چیخ و پکار مسلمانوں کو بیدار کردے اور اتحاد و اتفاق پیدا ہوجائے،آخر یہ تمام اسلامی حکومتیں اپنے مظلوم مسلم بھائیوں کشمیر فلسطین اور برما کے مظلوم بچوں بیوہ عورتوں اور بے سہارا ماﺅں کی داد رسی کیوں نہیں کرتیں؟”انما المومنون اخوة“ کے درس کو کیوں فراموش کردیا گیا ہے؟آخر یہ رشتہ اخوت کب کام آئیگا مخالفین اس وقت اپنی پوری توانائی اس مقصد کے لیے صرف کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے انہیں مسلکی و مشرقی مسائل میں اس قدر الجھایا جائے کہ سیاسی سماجی اور معاشی و اقتصادی استحکام کا انہیں موقع ہی نہ مل سکے اور ہمارے قائدین مخالفین کی اس پالیسی کو ناکام بنانے کے لیے موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے دانستہ یا نادانستہ اس سے صرف نظر کررہے ہیں ایسی صورت حال میں او آئی سی بھی بالکل غیر فعال نظر آرہی ہے سعودی عرب اور قطر تعلقات یا ایران اور سعودی تعلقات میں جو ایک نیا موڑ آیا ہے اس بحران کو ختم کرنے کے لئے او آئی سی کو اہم کردار اد اکرنے کی فوراً سخت ضرورت ہے اس طرح ب بیت المقدس برما شام اور کشمیر کے مسئلے میں آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ضرورت ہے عالمی منظر نامہ میں ترک حکومت مسلمانوں کے ہر مسئلے میں اہم کردار کررہی ہے گویا کہ ہر مسلمان کی ترجمانی کررہی ہے ترک صدر رجب طیب اردوان سلطنت عثمانیہ کی یادیں تازہ کررہے ہیں ہر اسلامی ملک کے سربراہ کو طیب اردوان کی طرح ترجمانی کرنے کی ضرورت ہے اگر اب بھی ہم غفلت میں پڑے رہے تو یہ غفلت مستقبل میں ہمارے لئے مزید مشکلات پیدا کردے گی مسلمانوں کے آپسی اختلافات و انتشار کی تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے آپس میں مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ قرآنی اسلامی اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے لیکن موجودہ حالات ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں خلوص و للہیت بہت حد تک رخصت ہوچکے ہیں آج ذاتی مفاد کے حصول کے لیے جماعت کا بڑے سے بڑ انقصان بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلیا جاتا ہے بعض مفاد پرست لوگ دنیا طلبی کی خاطر ہمیشہ مذہبی اور مشرقی اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں اختلافات و انتشار کی آگ بھڑکانے کے لئے اپنی ذہنی و فکری صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں ہمیں ایسے افرادکو نگاہ میں رکھ کر کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا تاکہ مزید نقصان سے بچایا جاسکے آج ہم مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا بہت زیادہ فقدان ہے اور اس فقدان کی چند اہم وجوہات نظریاتی اختلاف عصیبت و تنگ نظری دین سے دوری خوف خدا کا فقدان آپس میں رسہ کشی اور احساس کمتری وغیرہ ہے

موجودہ معاشرتے میں مسلمانوں کے مابین نظریاتی اختلافات زوروں پر ہے جس کی وجہ سے جدا جدا جماعتیں اورالگ الگ فرقے بنتے جارہے ہیں نظریاتی اختلافات ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن اس کی وجہ سے جو قومی اتحاد پار ہ پارہ ہورہا ہے وہ کہاں کی دانشمندی ہے؟
2 ۔آج عصیبت و تنگ نظری نے مسلمانوں پر اپنا سکہ جمالیا ہے آپﷺ نے جو حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اللہ تعالیٰ کے قرب اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے لیکن آج ہم مسلمان عصیبت کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں اس سے نکلنا مشکل معلوم ہوتا ہے مشاہدہ کہتا ہے کہ عصیبت اتحاد کی راہ میں سنگ گراں ہے۔


3 ۔اتحاد کے فقدان کی ایک اہم وجہ دین سے دوری بھی ہے دینی احکام سے بے رغبتی عام ہوتی ہے ہمارے کلچر میں دین و مذہب کی باتوں کو صرف رسم و رواج کا درجہ دیا جاتا ہے دینی تعلیمات سے آشنائی جب تک نہ ہو اتحاد و اتفاق کی کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں مسلمانوں میں اتحاد کی فضا قائم کرنے کے لئے اور اتحاد رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دینی تعلیمات عام ہوں۔


4 ۔آپسی رسہ کشی۔کبھی کبھی قائدین کے اختلاف کو بہت زیادہ ہو ادی جاتی ہے اس کی وجہ سے طرفین آپس میں دست و گریباں ہوجاتے ہیں یہ چیز بھی اتحاد و اتفاق کی راہ میں سد سکندری بن جاتی ہے۔
5 ۔احساس برتری ہمارے میں ایسے افراد کی کثرت پائی جاتی ہے جو شہرت اور ناموری کے لئے اختلافات کو بھڑکا دیتے ہیں یہ بات بھی اتحاد و اتفاق کی راہ میں رکاوٹ ہے،
جب تک اس صورتحال کا تدارک نہیں کیا جاتا ہمارے معاشرے میں اتحاد کا فقدان ہی رہے گا حکومت وقت اہل علم و اہل ذمہ دار لوگوں کو اس پر خاصی توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے مسلمانوں کی عالمی قیادت کو بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے اب ہمارے پاس مزید غفلت اور غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہی مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے صرف اجلاسوں کا انعقاد کافی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے سابقہ اجلاسوں کی تجاویزپر عملدرآمدنہ ہونے کی وجوہات کا جائزہ بھی لازماً لینا ہوگا،اس معاملے میں ترکی سعودیہ اور پاکستان کو قیادت لئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا پاکستان کی داخلی سیاست ایک غیر معمولی حد تک پہنچ چکی ہے یہاں اختلافات برائے اصلاح نہیں بلکہ اختلافات برائے اقتدار ہے جو ملکی مفاد میں بالکل نہیں اس غیر سنجیدہ ماحول میں سنجیدگی لانا بہت ضروری ہے ہر فرد اور ادارہ کو اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا،ہر پاکستانی پاک آرمی اور عدلیہ کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور ان سے محبت اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے میرے خیال میں ان دونوں اداروں کو بھی قانون کی پاسداری کرنی ہوگی آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کریں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ذاتی ملی و ملکی اور مشرقی اختلافات کو چھوڑ کر ایک قوم اور ایک ملت کی پھر سے بنیاد ڈالیں،مسلمانوں کے آپسی اختلافات و انتشار کی تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے آپس میں مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ قرآنی اسلامی اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے لیکن موجودہ حالات ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں خلوص و للہیت بہت حد تک رخصت ہوچکے ہیں آج ذاتی مفاد کے حصول کے لیے جماعت کا بڑے سے بڑا نقصان بھی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلیا جاتا ہے بعض مفاد پرست لوگ دنیا طلبی کی خاطر ہمیشہ مذہبی اور مشرقی اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں اختلاف و انتشار کی آگ بھڑکانے کے لئے اپنی ذہنی فکری صلاحیتیں صرف کررہے ہیں ہمیں ایسے افراد کو نگاہ میں رکھ کر کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا تاکہ مزید نقصان سے بچایا جاسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Musalmano ky mabeen is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 February 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.