مودی کابینہ میں ” 24 مجرم72 کروڑ پتی“

کابینہ میں توسیع ایک انتخابی ڈرامہ۔۔۔ بھارت میں آج کاروبار اور سیاست میں فرق مٹ چکا ہے

ہفتہ 29 جولائی 2017

Modi Kabeena Main 24 Mujrim 72 Karor Pati
رابعہ عظمت:
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ کے 78 وزراء کے بارے میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ 24 وزراء ایسے ہیں جن خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ 72وزراء کروڑپتی ہیں۔ جن کے اثاثوں کی اوسط مالیت اربوں روپے بنتی ہے۔ حال ہی میں 19نئے وزراء کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں اور سب سے امیر ارون جیٹلی ہیں جن کے پاس خزانے کا قلمدان ہے۔

جبکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے انتخابی مہم کے دوران سیاست کو بدعنوانی اور جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم دوسری جانب انہی کی ایک تہائی کابینہ ملزمان پر مشتمل ہے۔ ان 24 وزراء میں سے متعدد کو اقدام قتل، ریاست مخالفت اقدامات مجرمانہ دھمکیاں اور دھوکہ دہی کے الزامات کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی معروف اخبار کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سیاست کو پاک کرنے کے اپنے ہی وعدے کو خلاف ورزی کر دی ہے۔

مودی کابینہ میں شامل پانچ وزراء پر خواتین کی بے حرمتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں مجرموں کو شامل کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ ان کے مطابق یہ مقدمات مجرمانہ الزامات کی وجہ سے قائم کئے گئے ہیں نہ کہ مجرم ہونے کی وجہ سے۔ مزید کہا کہ وزیرا عظم نریندر مودی نے بذات خود جائزہ لینے کے بعد انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا۔

آگرہ کے رکن اسمبلی رام شنکر کھتریا کا نائب وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے ان پر بیس مقدمات درج ہیں۔ جن میں اقدام قتل ،مذہبی منافرت اورنفرت پھیلانا وغیرہ شامل ہیں۔ کیمکل وفرٹیلائزر کے وزیر ہنس راج گنگا کے خلاف بھی کئی مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ کوئلے کی صنعت میں بدعنوانی کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے19 نئے وزراء کو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا جبکہ پانچ کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا تھا۔

ابھی مودی کابینہ میں 78 وزیر ہیں۔ دہلی کے تھنک ٹینک ایسوسی ایشن فارڈ یمو کریٹک ریفارمرز کے مطابق کابینہ میں شامل کئے گئے نئے وزراء کی اوسط جائیداد کروڑوں روپے ہے جبکہ پوری کابینہ کی اوسط جائیداد 12,94 کڑوڑ روپے ہے۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق نئے وزراء میں مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا رکن ایم جے اکبر کے پاس سب سے زیادہ 44.90 کروڑ روپے کی اعلانیہ جائیداد ہے۔

دوسرے نمبر پر پی پی چودھری 35.35 کروڑ روپے اور تیسرے نمبر پر وجے گوئل 29.27 کڑور روپے کا نمبر آتا ہے۔ دونوں راجستھان سے راجیہ سبھا کے رکن ہیں۔ ایک کروڑ روپے سے زائد کی جائیداد والے نئے وزراء میں رمیش جگا جیناھی،پرشوتتم روپالا،انوپریا پٹیل،مہند ر ناتھ،بھگن سنگھ کلستے،راجین گوہین، ایس ایس ابلوالیہ،راجن رام میگھوال، سی آر چودھری،من سکہ بھائی،لکشمن بھائی،منڈویا اور کرشنا راج شامل ہیں۔

اے ڈی آر کے مطابق 78 مرکزی وزراء میں 9 وزراء نے اپنے پاس 30 کروڑ روپے سے زائد کی ملکیت ہونے کا اعلان کیا ہے جن میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی 13 کروڑ روپے فوڈ پروسیسنگ کی وزیر ہرسمرت کوربادل 108 کروڑ روپے سے اور بجلی کے وزیر گوئل پپوش95 ملین وغیرہ شامل ہیں۔ نئے وزراء میں وزیر ماحولیات اورمدھیہ پردیش سے راجیہ سبھارکن انل مسدھودوے کے پاس سب سے زیادہ 60.97 لاکھ روپے کی جائیداد ہے۔

کل چھ وزراء نے اعلان کیا کہ ان کے پاس ایک کروڑ روپے سے کم کی ملکیت ہے۔ نئے وزراء میں 7 نے اعلان کیا ہے کہ ان کہ خلاف مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔ ایسے میں 78 رکنی مودی کابینہ میں ایسے وزراء کی تعداد 24 ہے جہاں تک وزراء کی عمر کی بات ہے تو اس مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ تین کی 31 اور 40 سال کے درمیان ہے، 44 وزراء کی عمر 41 اور 60 سال کے درمیان ہے اور 31 وزراء 61 اور 80 سال کے درمیان ہیں۔

کابینہ میں کل 9خواتین وزیر ہیں۔ کابینہ کے 78 وزراء میں 14 ایسے ہیں جو 12 ویں پاس یا اس سے بھی کم پڑھے لکھے ہیں، 63 نے گریجویشن یا اس سے زیادہ کی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ مودہ کابینہ میں پہلی بار 20 اپرکاسٹ 13 اوبی سی،6 شیڈولڈ کاسٹ اور تین دلت وزیر بھی شامل کئے گئے ہیں۔ اس بار جس یو پی کے لئے ریاستی وزیر بنائے گئے ہیں۔ امت شاہ نے لوک سبھا کی80 میں سے 70 نشستیں جیت لی ہیں۔

اور اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ بی جے پی کی حکومتی کابینہ میں پسماندہ طبقات سے بھی وزیروں کو لیا گیا ہے۔ اتر پردیش میں شیڈ ولڈ کاسٹ کے لئے 17 نشستیں مخصوص ہیں ۔تمام انتخابات کے بعد نئی کابینہ کی تشکیل کے وقت تو بی جے پی کو دلت یاد نہیں آئے تھے اب اترپردیش ریاستی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اسے دلت ودیگر پسماندہ سیاسی چہروں کی ضرورت پڑگئی ہے۔

مودی کابینہ کے 27 رکنی کابینہ میں دودلت رکن اسمبلی شامل ہیں۔ دوسرے دلت رکن پارلیمنٹ لوک جن شکتی پارٹی کے کوٹے سے وزیر منتخب کئے گئے ہیں۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ دلتوں اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی کو وزیر خارجہ یا وزیر خزانہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟ انہیں کم اہمیت کی وزارتیں سونپ کر محض خانہ پری کی جاتی ہے۔ واحد رام ولاس پاسوان ہی ایسانام ہے جو دلت ہونے کے باوجود کئی حکومتوں میں وزیر رہیں۔

وہ ریلوے،لیبر، مواصلات، کیمیکل، اسٹیل ، اور پارلیمانی امور کے وزیر کی حیثیت سے ذمہ داری نبا چکے ہیں۔ یہی سوتیلا سلوک اقلیتی وزراء بالخصوص مسلم وزیروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ مختار عباس نقوی اس کی واضح مثال ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ دلت لیڈر مایاوتی نے نریندر مودی کی حالیہ کابینہ کی توسیع کو انتخابی ناٹک قراردیا ہے۔ مایاوتی نے مزید کہا کہ بی جے پی بھی آج کانگریس کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔

اور کابینہ کی توسیع کے موقع پر وزیراعظم کی طرف سے لوگوں کو ورغلا یا گیا ہے کہ کابینہ کی توسیع بجٹ کے اہم پہلوؤں کی بنیاد پر کی جائے۔ دراصل کابینہ میں کی گئی توسیع مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات خاص طور پر اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں ہونے والے ان الیکشن کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے۔ دلت لیڈر کے مطابق مودی حکومت کے دو صوبوں میں غریبوں،کسانوں،دلتوں اور اقلیتوں کو نظر انداز کرکے امیر طبقوں کے مفاد کے لئے کام کیا ہے۔

ایے میں کمزور طبقوں کے نمائندوں کو کابینہ میں چھوٹی موٹی جگہ دینے سے ان پسماندہ طبقات کی حالت سدھر نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ تمام ریاستی اسمبلیوں میں بھی دولت مند ارکان اسمبلی میں براجمان ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جیسا کہ مشہور صنعت کار ایم اے ایم رانا سوامی اپنی ریاست سے راجیہ سبھاکے لئے منتخب نہ ہوسکے۔ انہوں ے تامل ناڈو کے بجائے کرناٹک سے جنتا دل (ایس) کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔

ایوان میں ان کی حاضری 6 فیصد رہی۔ داووں کے تاجر مہندرا پرساد کے اثاثہ جات 6 ارب 83 کروڑ روپے بتائے گئے ہیں اس سے قبل ان کی تائید کانگریس نے کی تھی۔ اس کے بعد راشٹریہ جنتا دل نے مدد کی جنتا دل بہار سے مزد ہوئے۔ صنعت کارراہول بجاج نے بی جے پی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ ان کے اثاثے تین ارب روپے بتائے گئے ہیں۔ اتر پردیش سے سماج وادی پارٹی کے صنعت کا امرسنگھ بہوجن سماج کے بینی پرساو ورما،ستیش مشرا بھی ان دولت مندوں میں شال ہیں۔

بی جے پی کی وزیر پریتی مہاترا ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم کی سربراہ ہیں اور ان کے شوہر پرمہاپتر اعلیٰ درجے کے بزنس مین ہیں۔ ان کے اثاثہ جات 23 کروڑ ظاہر کئے گئے ہیں۔ جنتا دل ایس کے جی ایم فاروق قاب تجدید توانائی اور رئیل اسٹیٹ کے تاجر ہیں ان کے اثاثوں کی تفصیل 6 ارب سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات میں وہی امیدوار میدان میں اتارے جاتے ہیں جن کے پاس خرچ کرنے کیلئے بھاری رقم ہو یا پھر انہیں نجی افراد یا کمپنیوں کی طرف سے فنڈز ملیں ہوں، یقینا کامیابی کے بعد وہ ان افراد یا کمپنیوں کے مفاد کو ترجیح دیں گے، جنہوں نے ان پر سرمایہ کاری کی تھی۔

عطیہ کی گئی رقم کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے پورا کیا جائے گا اور تو اور وزراء بھی سرکاری افسران کی مدد سے رقم حاصل کرنے کی سہولت رکھتے ہیں۔ ایک سینئر سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ”عطیات فراہم کرنے والوں کو انتخابات کے بعد سہولیات دینا پڑتی ہے“۔ یہ سیاست دانوں ،سرمایہ کاروں اور سرکاری افسران کا ادغام سب سے بڑی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

مسئلہ یہی ہے کہ جب یہ لوگ انتخابات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو جمہوریت ان کی باندی بن جاتی ہے۔ اس کے بعد اسمبلی میں وہی کچھ ہوگا جو یہ چاہیں گے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی کو بہت زیادہ فنڈز ملے تھے۔ بھارتی کرنسی میں ان کا حجم پانچ بلین تھا۔ اس کی وجہ بی جے پی کے سمندر اپر روابط تھے۔ اس بات کا اعتراف بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کیا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت میں انتخابات احتساب اور صفائی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لیکن بھارت میں یہ مزید بدعنوانی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ حتیٰ کہ افسران جو کبھی انتخابات کا انعقاد کروانے کے ذمہ دار تھے ان کا کردار شک وشبہ سے بالاتر تھا۔ اب ان کی آنکھوں کے سامنے انتخابات میں رقم کا استعمال ہوتا ہے لیکن ان کی طرف سے کوئی کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

گویا آج بھارت میں کاروبار کرنے اور سیاست کرنے میں فرق مٹ چکا ہے۔ جب ایک سو سے زیادہ کمپنیوں کے سی ای اوز نے بی جے پی کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تو کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے تھا کہ یہ ماہرین بی جے پی میں شامل ہونے کا تحفہ ضرور وصول کریں گے اور انہیں ایک بڑا حصہ دینا پڑے گا۔ گاندھی جی کے پوتے گوپال کرشنا جو بھارتی ریاست مغربی بنگال کے گورنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ”محبت اور جنگ میں کی طرح اب سیاست میں بھی سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے“ معروف جریدے”دی اکنامکسٹ“کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں بدعنوان سیاست دانوں اور صنعتکاروں نے بے ایمانی رشوت اور کمیشن سے ارب ڈالر کمائے ہیں۔

تحقیقاتی ادارے گلوبل فنانشل میں لکھا ہے کہ بھارتی سیاست دانوں اور صنعتکاروں نے کالے دھن کے اوسطاََ 52 ارب ڈالر بیرون ملک بینکوں میں جمع کروائے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Modi Kabeena Main 24 Mujrim 72 Karor Pati is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.