مصرکی انقلابی تحریک

پانچ سال بعد بھی مقاصد حاصل نہ ہوئے

پیر 8 فروری 2016

Misr Ki Inqalabi Tehreek
Haitham-el tabel:
سابق مصری آمرحسنی مبارک کی اقتدار سے بیدخلی اور بغاوت کی تحریک کوپانچ سال گزر چکے ہیں مگر مصر جمہوریت کی جانب لوٹنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر آمریت کی جانب لوٹ چکا ہے۔ صدر عہد الفتاح السیسی اپنے مخالفین کی بیدردی سے کچل رہے ہیں۔ خواہ ان کاتعلق اخوان المسلمون یاجہادی شدت پسند گروپ سے ہو۔ سیاسی پابندیوں کاشکار ہونیوالی اخوان المسلمون واحد سیاسی جماعت ہے جس نے گزشتہ دنوں 2011ء میں ہونیوالی بغاوت بھرپور طریقے سے تحریک اسکوائر پر جمع ہوکر منایا۔

اخوان المسلمون کے سرگرم کارکنوں کاکہنا ہے کہ احتجاجی تحریک کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر پولیس نے صدر السیسی کے مخالفین پرپولیس گردی کر کے ایک مرتبہ پھر سیاسی دیوالیہ پن کامظاہرہ کیا۔

(جاری ہے)

پانچ سال قبل ایک نوجوان کی 18روزہ بھوک ہڑتال نے حسنی مبارک کی 30سالہ حکمرانی کاخاتمہ کرانے میں اہم کردار ادا کیاتھاجنہیں رات کے وقت ایک گرفتار کرکے ہلاک کردیاگیا۔

مصطفی مہر اپریل سکس یوتھ تحریک کے بانی نے اینٹی مبارک تحریک کوفروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہرحکومت نوجوانوں کی حمایت کادعویٰ تو کرتی ہے مگر 25نوجوانوں کی حمایت کادعویٰ توکرتی ہے مگر 25جنوری کی احتجاج میں حصہ لینے والے نوجوانوں کوایک مرتبہ پھر گرفتار کرلیا گیا۔ کئی نوجوان گرفتاری کے خوف سے اپنے قاہرہ کے اپارٹمنٹ سے نام معلوم مقام منتقل ہوگئے۔

28سالہ گرافک ڈیزائزمصطفی مہرکاکہناہے کہ اگرچہ وہ پولیس کومطلوب نہیں تھے، مگر انہیں غلط الزامات میں گرفتار کاخدشہ تھا۔ ریاستی تشدد مبارک کیخلاف 2011ء کی بغاوت کی تحریک کی وجہ بنا۔ اب صدر الفتح السیسی کی مخالفین پرپرتشدد کارروائیاں پورے عروج پر ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ صدرالسیسی کی کوئی اپنی سیاسی جماعت نہیں ہے مگر وہ مخالفین کوبیدردی سے نشانہ بناکر 2014ء کا صدارتی انتخاب جیت گئے۔

جولائی 2013ء میں معزول صدر محمد مرسی کی جمہوری حکومت کوہٹانے میں آرمی چیف کی حیثیت سے انہوں نے اہم کردار کیا۔ اسلام پسند محمدمرسی حسنی مبارک کے جانشین بنے مگرایک سال بعد ہی انہیں اپنے عہدے سے معزول کردیاگیا۔ تب سے محمد مرسی کے ہزاروں حمایتی ہلاک اور ہزاروں کوپولیس پابند سلال بناچکی ہے جبکہ درجنوں سیکولر اور بائیں بازو کے سرگرم کارکنوں کوبھی جیل کی سزا ہوچکی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہنا ہے کہ حسنی مبارک کی اقتدار سے معزولی کاعوام کوکوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ مصر دوبارہ پولیس اسٹیٹ بن چکاہے۔ ملک بھرمیں انسانی حقوق کی صورت حال کہیں زیادہ خراب ہو چکی ہے اور آبادی کاایک بڑاتناسب دوبارہ سخت بحران میں مبتلا ہوچکاہے۔ پرامن مظاہرین، سیاستدان اور صحافیوں کی جانب سے جمہوری حکومت کی اقتدار سے علیحدگی کیخلاف احتجاج پر حکومت اور سکیورٹی فورسز نے بے رحمانہ پرتشدد مہم شروع کررکھی ہے۔

پیرس بیس انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹرٹیجک ریلیشنز کے تجریہ کار کریم بائیٹار کا کہناہے کہ السیسی حکومت نے 2011ء کی تحریک دفن ہوگئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ 2011ء کی احتجاجی تحریک کی وجوہات اب بھی موجود ہیں مگرنئی حکومت ریاستی مشینری کے ذریعے احتجاجی مظاہروں کوروکنے میں کامیاب رہی ہے۔ پانچ سال قبل مبارک کیخلاف لاکھوں مظاہرین نے تبدیلی کیلئے روٹی، آزادی اور سماجی انصاف کا نعرہ بلند کیاتھا مگرپانچ سال کے بعد بھی یہ مطالبات ہنوز پورے نہیں ہوسکے۔

السیسی حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ست رو معیشت ، گرتی ہوئی سرمایہ کاری اور سیاحت کی آمدنی میں نمایاں کمی ہے جسے شدت پسند گروپ داعش کی وجہ سے بدترین مشکلات کاسامنا ہے۔ گزشتہ دنوں سات افراد بشمول پانچ پولیس والے قاہرہ کے ایک اپارٹمنٹ پرکارروائی کے دوران بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔ا س دھماکے کی ذمہ داری داعشنے قبول کی ہے۔ قاہرہ سے تعلق رکھنے والے عرب نیٹ ورک انسانی حقوق کے سربراہ جمال عیدکا کہنا ہے کہ ریاست کی مخالفت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ انسانی حقوق کی صورتحال مرسی کی معزولی، مبارک یا(سکاف) فوجی حکمرانوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کہیں زیادہ خراب ہوچکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Misr Ki Inqalabi Tehreek is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.