مشرق وسطیٰ کے وسائل پر امریکی قبضے کا خواب!

جدید اسلحے کی گھن گرج میں امن کے بلند وبانگ دعوے دہشت گردی کے خلاد نام نہاد جنگ نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا․․․․․․․․․․ انسانی حقوق کے علمبردار بھوک وافلاس مٹانے کے بجائے جگ کی تباہ کاریوں کو دعوت دینے میں مصروف کیوں ہیں؟

منگل 2 جنوری 2018

mashriq wasta  k Wasayal  per americe Qabzay  Ka khawab
محبوب احمد:
دنیا میں جہاں ایک طرف اسلحے کے ڈھیر لگائے جارہے ہیں وہیں دوسری طرف بھوک وافلاس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف جہاں امن کی باتیں کی جارہی ہیں وہیں دوسری طرف عالمی وسائل پر قبضے کی خاطر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ چھیڑ کر بیشتر ممالک کا خانہ جنگی کا شکار کیا جارہا ہے، ایک طرف اسلحے کی گھن گرج جاری ہے جبکہ دوسری طرف غربت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

انسانی ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آج انسانی حقوق کے علمبردار بھوک وافلاس مٹانے کے بجائے جنگ کی تباہ کاریوں کو کیوں دعوت دے رہے ہیں ۔ دنیا کی تقریباََ 7 ارب کی آبادی میں سے 2 ارب افراد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایک اندازے کے مطابق 22 ہزار بچے روزانہ بھوک وافلاس کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، کئی ممالک پر تشدد وتنازعات اور جنگ وجدل کے باعث قدرتی وسائل کے باوجود انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں جن میں کانگو، لائیبریا، زمباوے، برونڈی ، اری ٹیریا، سنٹرل افریقین ریپبلک، نائجیر، سری الیون، ملاوی، ٹوگو ، مڈغا سکر، افغانستان اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں ، روس ، یوکرائن اور قازقستان میں خشک سالی کی وجہ سے پیداوار میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ اور یورپی یونین میں بھی تقریباََ870 ملین افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے ۔خوارک میں کمی سے قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں جس کا اعتراف خود اقوام متحدہ نے بھی کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ گھمبیر صورت اختیار کرجائے گا ، یادرہے کہ خوراک کا سٹاک جو آج سے 10 سال پہلے 104 دنوں کیلئے رکھا جاتاتھا اب سکڑ کر 74 دن تک آن پہنچا ہے جو کہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نتیجے میں خون ریزی کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل اور پیداواری ذرائع بھی نیست ونابود ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی یا علاقائی گرفت کو مضبوط کرنے کیلئے اسلحے کی دوڑ اور فوجی اخراجات میں اضافہ تو جاری ہے لیکن اسی مناسبت سے غربت کو ختم کرنے کیلئے کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں، یہاں قابل غور امریہ ہے کہ دفاع پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلا نمبر امریکہ کا ہے، یہ سوال اب زبان زدعام ہیں کہ دنیا میں قیام امن کے جو بڑے دعویدار دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جاری کئے ہوئے ہیں ان کے قول وفعل میں تضاد کیوں ہے؟ یہ ممالک سکیورٹی اور امن کے نام پر فوجی اخراجات میں اضافہ کرکے قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کے خلاف محاذ آرائی کیوں شروع کئے ہوئے ہیں؟ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ دیگر تمام سے بڑھ کر دنیا میں کسی مفہوم یا معافی کو پھیلانے کی استعداد رکھتا ہے لیکن کیا اس کی یہ برتری مستقبل میں بھی اسی طرح قائم رہے گی؟ کیا امریکہ خود کو ایک ثقافتی اور نظریاتی لیڈر کے طور پر دوسری عالمی اقوام پر مسلط رکھے گا؟ ۔

کیا گلوبلائزڈ ثقافت پر امریکی ثقافت کارنگ ہی غالب رہے گا؟۔ امریکہ جو بھی اسلحہ بناتا ہے وہ دیگر ممالک کو فروخت کرتا ہے یا خود دوسرے ممالک میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ 1979ء سے لے کر افغان سرزمین پر مختلف اوقات میں کسی نہ کسی شکل میں جو بھی اسلحہ استعمال ہوا، چاہے وہ مغرب سے ہو یا شمال مغرب یہ جنگ اور خون ریزی کیلئے آج تک استعمال ہورہا ہے۔

اگر بظاہر دیکھا جائے تو امریکہ نے 2001ء سے 2013ء تک تقریباََ641 ارب ڈالر ڈیفنس پر خرچ کئے جبکہ پوری دنیا میں سال 2011ء تک فوجی اخراجات کی مد میں1.63 کھرب ڈالر خرچ کئے گئے ۔ بھارت کو بھی اگر دیکھا جائے تو اس کے دفاع پر اخراجات 48.9 ارب ڈالر ہیں جو دنیا کے ڈیفنس پر اٹھنے والے کل اخراجات کا 2.8 فیصد بنتے ہیں۔ امریکہ نے 2012 میں8760 ،ملین ڈالر ، روس نے 8003 ملین ڈالر، جرمنی نے 193 ملین ڈالر ، فرانس نے 1193 ملین ڈالر چین نے 1783 ملین ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا، دیگر اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک میں برطانیہ، اٹلی، اسرائیل، سویڈن، سپین،کینیڈا اور ساؤتھ کوریا شامل ہیں۔

عالمی استعمار امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی دنیا میں اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیئے تھے، یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ایک ممالک پر امریکی وفرانسیسی تسلط قائم رہا ہے بلکہ آج تک کچھ ممالک میں تو قوانین بھی وہی رائج ہیں جو فرانسیسیوں نے بنائے تھے،البتہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانیت کے ماتھے پر مغربی ویورپی ممالک کی طرف سے جو کلنک کا ٹیکہ لگایا گیا اسے آج سبھی”اسرائیل“ کے نام سے جانتے ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت فرانس اور دیگر یورپی قوتوں نے کس طرح مشرق وسطیٰ سمیت شمالی افریقہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی، اس سے ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔ ایشیاء شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے امریکہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کام کو انجام دینے کے لئے اسرائیل صف اول میں اس کے ساتھ موجود ہے۔ عالمی استعمار امریکہ کی”نیوورلڈ آرڈر“ کی اصطلاح کا اصل مطلب بھی یہی ہے کہ پوری دنیا پر امریکی غاصبانہ قبضہ اور کہیں اسرائیل جیسی غاصب صہیونی ریاست کے ذریعے فلسطین پر اجارہ داری ، گریٹر اسرائیل (نیل تافرات) کے ناپاک منصوبے، لبنان پر اسرائیلی حملوں کا دفاع ، عراق، افغانستان اور لیبیا میں اپنی فوج بھیج کر وہاں کے وسائل پر قابض ہونا ، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ، شام میں دہشت گرد قوتوں کو اسلحہ اور ڈالر کی مدد سے عدم استحکام کی سازشیں کرنا، بالکل اسی طرح مصر، تیونس ، یمن سمیت سوڈان اور صومالیہ میں امریکی جارحیت کی واضح مثالیں موجود ہیں کہ جہاں امریکہ نے کبھی انسانی حقوق ، کبھی مہلک ہتھیاروں او ر کبھی جمہوریت کے نام پر شب خون مارا اور پھر وہاں کے تمام وسائل پر قابض ہونا ، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ، شام میں دہشت گرد قوتوں کو اسلحہ اور ڈالر کی مدد سے عدم استحکام کی سازشیں کرنا، بالکل اسی طرح مصر ، تیونس، یمن سمیت سوڈان اور صومالیہ میں امریکی جارحیت کی واضح مثالیں موجود ہیں کہ جہاں امریکہ نے کبھی انسانی حقوق ، کبھی مہلک ہتھیاروں اور کبھی جمہوریت کے نام پر شب خون مارا اور پھر وہاں کے تمام وسائل پر قابض ہوگیا۔

انسانی حقوق کے علمبردار اگر واقعی اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ پسماندہ ممالک کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ بند کرکے امن پسند ہونے کا ثبوت دیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جنگ تباہی اور موت کی علامت ہے اور اس سے گریز امن اور ترقی کا ضامن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کے باوجود غریب ممالک خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہاں ضرورت اب اس امرکی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں استعمال ہونے والا خطر دفاعی بجٹ ترقی پذیر ممالک کی پسماندگی دور کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تاکہ قیام امن کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mashriq wasta k Wasayal per americe Qabzay Ka khawab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.