کوریا کا غیر متزلزل عزم سامراج کیلئے چیلنج!

ایٹمی تجربات پر نئی اقتصادی پابندیاں‘جنگ کے خطرات منڈلانے لگے، شمالی کوریا کو برآمدات کم ہونے کی وجہ سے سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوگا

بدھ 23 اگست 2017

Korea Ka Ghair Mutazalzal Azm Samrajj K Liye Challenge
محبوب احمد:
عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات امریکہ اور اس کے اتحادیوں خصوصاََ جنوبی کوریا اور جاپان کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔ شمالی کوریا نے گزشتہ دنوں جو 2 بین البراعظمی میزائلوں کا تجربہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اب امریکہ ان کی پہنچ سے دور نہیں ہے اس کی جاپان،جنوبی کوریا اور امریکہ نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، حال ہی میں کئے جانے والے ایٹمی تجربات کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس پر نئی پابندیوں کے علاوہ کئی دیگر امور بھی زیر بحث آرہے ہیں کیونکہ ان ایٹمی تجربات نے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک کے ایوانوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج شکست خوردہ سامراج رجعتی طاقتوں کا سہار ا لے کر آگے بڑھنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک شمالی کوریا کے خلاف مئوثر اقدامات کی ضرورت پر متفق ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکہ گزشتہ 70 برس سے شمالی کوریا کا گھیراؤ کئے ہوئے ہے اور اس نے اپنے جارحانہ عزائم کے پیش نظر درجنوں فوجی اڈے بھی قائم کئے ہوئے ہیں۔ چین شمالی کوریا کا واحد اتحادی ملک ہے اور ماضی میں وہ شمالی کوریا کو ویٹو کے ذریعے ضرررساں پابندیوں سے بچاتا رہا ہے، اب اقوام متحدہ کی طرف سے سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کی پاداش میں نئی پابندیاں عائد کرنے کی منظوری دی ہے اس پر چین نے بھی اتفاق کیا ہے لیکن چین جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے کے پرامن حل کے لئے مذاکرات کی جلد بحالی کا بھی خواہاں ہے۔

شمالی کوریا پر حالیہ ایٹمی تجربات کے بعد نئی لگائی جانیوالی اقتصادی پابندیوں کا مقصد محض یہی ہے کہ اب اسے تنہا کردیا جائے تاکہ یہ اپنے عزائم سے باز آجائے۔ امریکہ نے ایک ماہ قبل ہی شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کے لئے چین سے گفتگو شروع کی تھی جب شمالی کوریا نے بین الاقوامی بیلسٹک میزائل کے تجربات کئے تھے۔ شمالی کوریا کے ساتھ بیرونی تجارت میں چین کا حصہ90 فیصد ہے اس لئے ہمسایہ ملک پر پابندی کے باعث اس کے اثرات کے حوالے سے چین کا فیصلہ اہمیت کا حامل ہے، نئی پابندیوں میں شمالی کوریا کو اپنے مزدوروں کو بیرون ملک بھیجنے سے بھی روک دیا گیا ہے جو کہ ان کی آمدنی کا ایک اہم حصہ ہے۔

تیل کی تجارت شمالی کوریا کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے ، تاہم بعض اطلاعات کے مطابق تازہ پابندیوں میں اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ شمالی کوریا کی برآمدات 3 ارب ڈالر کے قریب ہیں جن میں سے ایک ارب ڈالر ان پابندیوں کی وجہ سے ختم ہوجائیں گے۔ ماضی میں بھی ایسی کئی ایک پابندیاں عائد کرکے امریکہ میں جائیدادیں اور اثاثے منجمد کئے گئے لیکن شمالی کوریا نے ان اقتصادی پابندیون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ایٹمی تجربات جاری رکھے۔

ماہرین کے نزدیک اگر شمالی کوریا ایٹمی قوت نہ بنتا تو آج اس کا حشر بھی عراق،افغانستان اور لیبیا جیسا ہی ہوتا۔ شمالی کوریا کے محنت کش عوام اپنی سوشلسٹ ترقی وحاصلات کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ دراصل ان کی دفاعی مضبوطی کے باعث ہی ممکن ہوسکا ہے جس سے امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادی خوف کا شکار ہیں۔ شمالی کوریا کی طرف سے بار ہا یقین دہانی کے باوجود کہ جوہری ہتھیاروں کو فروغ دینے کا مقصد صرف اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے اور یہ کہ وہ ان ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کریں گے پھر بھی اقتصادی پابندیاں لگانا لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیوں کی منظوری کے بعد چین اور امریکہ کی جانب سے بھی جوہری میزائل کو ترک کرنے کے لئے شدید دباؤ بڑھ گیا ہے۔ شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی کا آپشن بھی امریکہ کے پاس موجود ہے، لہذا ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی تنبیہہ کوریا کے جوہری پروگرام اور دھمکیوں پر امریکہ کی جانب سے غم و غصے کا ایک اظہار ہی ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اقتصادی پابندیوں کے بعد شمالی کوریا نے بھی امریکہ پر راکٹ حملہ کرنے کی دھمکی دے کر اپنی افواج کو متوقع جنگ کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے، کوریائی حکومت نے امریکہ ہی نہیں جاپان کو بھی خبردار کیا ہے کہ اس کے حملوں کی زد میں جاپان کے وہ علاقے بھی آئیں گے جہاں امریکی فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

شمالی کوریا کا اب امریکی جزیرے گاؤم میں موجودفوجی اڈے پر میزائل حملہ کرنے کا بھی ارادہ ہے کیونکہ بحرالکاہل میں موجود اس امریکی جزیرے میں امریکی نیوی اور ایئر فورس کے اڈے موجود ہیں جہاں 6 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شمالی کوریا کے ساتھ جاری کشیدگی اس وقت انتہا کو پہنچ چکی ہے جس سے خطے میں جنگ کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔

دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 2015ء کے آغاز میں 16 ہزار کے لگ بھگ تھی 2016ء میں روس اور امریکہ کے پاس 7 ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات منظر عام پر آئیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کا 93 فیصد ایٹمی اسلحہ ان دونوں ممالک کے پاس موجود ہے۔ امریکہ اور روس کے بعد، فرانس کے پاس 3سو،چین کے پاس کے اڑھائی سو،برطانیہ کے پاس 215 ،بھارت اور صہیونی حکومت کے پاس ایک سو کے لگ بھگ اور شمالی کوریا کے پاس 10 کے قریب جوہری ہتھیار موجود ہیں ، لہذا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ ، روس ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک اپنے ایٹمی اسلحے کے ذخائر کو تلف کرنے پر راضی نہیں ہیں تو ایسے حالات میں شمالی کوریا پر اپنی حفاظت کیلئے کئے گئے اقدامات پر اقتصادی پابندیاں لگانا سمجھ سے بالاتر ہے، اگر بظاہر دیکھا جائے تو عالمی وسائل پر قبضے اور اقتدار کے لئے جو کوششیں جاری ہیں ان سے تیسری عالمی جنگ کے خدشات مزید تقویت پکڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Korea Ka Ghair Mutazalzal Azm Samrajj K Liye Challenge is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.