کشمیر لہو لہو

آزادی کی جدوجہد خون کا خراج مانگتی ہے۔کشمیر کے عوام آج بھی اس جدوجہد میں خون آشام دور سے گزر رہے ہیں جنہیں ڈوگرا سکھ راج کے بعد سے آج تک ہندو سامراج کا سامنا ہے

جمعہ 27 اپریل 2018

Kashmir lahuu lahuu
ڈاکٹر سعید احمد ملک

آزادی کی جدوجہد خون کا خراج مانگتی ہے۔کشمیر کے عوام آج بھی اس جدوجہد میں خون آشام دور سے گزر رہے ہیں جنہیں ڈوگرا سکھ راج کے بعد سے آج تک ہندو سامراج کا سامنا ہے۔ہندو بنیاد پرستوں نے قیام پاکستان کے موقع پر جو ظلم روا رکھا، مسلمان ہی نہیں غیر ملکی پریس میں غیر مسلم صحافی بھی اس کے چشم دید گواہ ہیں۔

مشرقی پنجاب میں خون کا جو سیلاب آیا ا س کا کچھ اندازہ لندن ٹائمز کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جو اس نے اگست اور ستمبر 1947ء کو جالندھر اور امرتسر سے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں۔

(جاری ہے)

وہ ہر روز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو مغرب کی جانب بنوک شمشیر بھگا دیتے ہیں۔

وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھروں کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ اس ظلم و تشدد کو سکھوں کی اعلیٰ قیادت نے منظم کیا ہے اور یہ خوفناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے امرتسر میں 8اگست کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑ جلنا شروع ہو گئے تھے اور لوگ پناہ کیلئے بھاگنا شروع ہو گئے۔13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔

15 اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا یوم آزادی بڑے عجیب طریقے سے منایا گیا۔ سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا۔ ان کی آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلا دیا۔ تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبر ان الفاظ میں بھجواتا ہے اس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افراد تھے اور ان میں سے اکثر پیدل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔

ایسے ہی کئی اور قافلے مشرق سے مغرب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا، تھکان سے چور، بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال، دو ماہ بعد وہ لکھتا ہے70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ بالکل بے سرو سامان تھے ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اڑی ہوئیں تھیں یہ وہ درد کشان بلا تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل، لاشوں کی قطع وبرید اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

راستے میں ہر قدم پر موت ان کی گھات میں تھی۔ ان میں سے ہزاروں بھوک و بیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہو گئے یا سکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہت سے پاکستان کی سرحد پر پہنچتے ہی ابدی نیند سو گئے۔(بحوالہ: خون مسلم ارزاں ہے۔ از ڈاکٹر سعید احمد ملک)
لندن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔

اس نے 27اگست 1947ء کے ڈیلی میل میں لکھا:
میری کہانی صرف وہ لوگ سن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں ۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا، اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونیوالی دہشت و بربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل9 ڈبوں پرمشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سما سکتے تھے۔

اس ریل کے مسافروں کوبٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہ تیغ کر دیا گیا تھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کیلئے روانہ ہوئی۔ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جا بجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جو لاہور کی لٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولناک اور دہلا دینے والے تھے۔ گدھ ہر گائوں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹڑی پر اکٹھے ہو رہے تھے، کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اٹھ رہے تھے۔

جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔ اس ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔

وہ مزید لکھتا ہے: فیروز پور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لٹا پٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہو گئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹپ ٹپ گرنے لگا۔

بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہرا کر درندے نے کہا لو! یہ ہے تمہارا پاکستان جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوک سنا پہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا۔ ڈیلی میل کا یہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے: بٹھنڈا سٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ، گھنانا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کر رہے ہیں۔ دو لڑکیوں کو تو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کر ڈالا۔(بحوالہ: خون مسلم ارزاں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmir lahuu lahuu is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 April 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.