اسرائیلی ظلم وبربریت پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی کیوں

بنیادی سہولیات سے محروم ہزاروں فلسطینی بچے ، خواتین اور مرد جیلوں میں سخت اذیت کاشکار ہیں

منگل 27 دسمبر 2016

Israeli Barbariat Par Aqwam e Muthida Khamosh Tamashai Kiun
محبوب احمد :
سرزمین فلسطین میں صہیونی ریاست کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے والی بدامنی کی لہر مزید پھیل رہی ہے ۔ مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء اور بیت المقدس کی زمان ومکان کے لحاظ سے تقسیم کے بعد اب فلسطینی سکولوں کے نصاب میں تبدیلی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ آبادی کے تناسب سے اگر دیکھا جائے تو غرب ارون میں آباد کا یہودی کل آبادی کا 16فیصد ہیں جبکہ عملی طور پر وہ پورے غرب اردن کے 42 فیصد علاقے پر قابض ہیں ۔

صبہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے آئے روز مظلوم فلسطینیوں کی زمینیں غصب کرکے نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کاسلسلہ جاری ہے اور اب تک مقبوضہ مغربی کنارے پر 5لاکھ سے زائد یہودی آباد کاروں کوبسایا جاچکا ہے ، 16 یہودی بستیوں کو تو 1948ء میں زیر تسلط آنے والے علاقوں کے ساتھ ملادیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اسرائیلی حکومت کے فلسطینیوں خاص طور پر بچوں کے خلاف جارحانہ اور پر تشدد اقدامات ساری دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے اعتراف کے باوجود تاحال صرف ان مظالم پر لفظی مذمت ہی کی گئی ہے جس سے عملی طور پر فلسطینیوں کی کوئی مدد ہوئی ہے نہ ہی کبھی اسرائیل کے حملے رکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تسلط وطاقت کے فلسفہ پرقائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم وجور اور سفاکیت وبربریت کایہ سلسلہ ہرآنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتا جارہا ہے ۔

ایک طرف عالمی برادری خصوصاََ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم فلسطین میں اسرائیلی جبروتسلط پر اظہار مذمت کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن دوسری طرف ان ظالمانہ اقدامات پر بھارت اور اسرائیل کی پس پردہ حمایت کاسلسلہ بھی جاری ہے لیکن جہاں اسرائیلی مظالم پر عالمی برادری کی زبانیں خاموش ہیں وہیں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی صرف لفظی احتجاج پرہی اکتفا کررہے پہیں ۔

صہیونی حکومت کے ظالمانہ برتاؤ سے متعلق عالمی برادری خصوصاََ اقوام متحدہ کی سستی وکاہلی اور مغرب کی ہمہ گیرحمایت نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی ظالمانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنیکے سلسلے میں گستاخ بنایا ہوا ہے ، اقوام متحدہ اور امریکہ کے رویہ نے فلسطینیوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے جس سے انصاف پسند دنیا میں بے چینی کی فضا بڑھتی ہی جارہی ہے کیونکہ آج امریکہ کے تمام فیصلہ ساز ادارے یہودی لابی ہی کے ماتحت ہیں اور پینٹا گان پر بھی یہودی ہی قابض ہیں ۔

صہیونی حکومت عالمی اداروں کی قرار دادوں کی پروا کئے بغیر بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو کہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہوا ہے ۔ اسرائیلی حکومت کے اس اقدام کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی توسیع ،مشرقی بیت المقدس کو اس کے اطراف کے علاقوں سے الگ کرکے فلسطینیوں کی اراضی پرزیادہ سے زیادہ قبضہ کرنا ہے ۔

فلسطین مخالف ایک نئے منصوبے کے تحت اسرائیلی حکومت بیت المقدس میں موجود فلسطینیوں کی تعداد جو 37 فیصد ہے کو کم کر کے 12فیصد کرناچاہتی ہے ۔ اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سینکڑوں منصوبے بناچکی ہے جن پر تقریباََ مکمل عملدرآمد ہوچکا ہے ۔ اسرائیلی منصوبے کے تحت ، یروشلم کے قرب میں معل عبدومن کے مقام پر 560 نئے مکانات تعمیر کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ہی تقریباََ دو سو مکان شہر میں تعمیر کئے جانے کا منصوبہ ہے ، مشرقی یروشلم میں ایک عرب بستی کے پاس ہی 6 سوسے زائد مکان تعمیر کرنے کامنصوبہ بھی شامل ہے ، لہٰذا اسرائیل کے یہ اقدامات بنیادی طور پر دوریاستی حل کے امکانات کے لئے نقصان دہ ہیں ۔

مسجد اقصیٰ سے 150 میٹر کے فاصلے پر ” معالیہ ازیتیم “ کے نام سے ایک کالونی بھی تعمیر کی گئی ہے جس میں 132 کے لگ بھگ رہائشی اپارٹمنٹس ہیں، 26 بستیاں تومقبوضہ المقدس میں جبکہ رملہ اور البریح ضلع میں 24 یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ اسرائیل جب ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھراتھا تو اس وقت اس کا کل رقبہ صرف 5ہزار مربع میل اور اس کی حدود میں کم وبیش 5لاکھ یہودی آباد تھے جبکہ آج اسرائیل کا رقبہ 34ہزار مربع میل اور آبادی 57لاکھ سے زائد ہے ۔


بے گناہ فلسطینیوں کی گرفتاری کے بعد بھاری جرمانوں کے عوض رہائی اسرائیلی انتظامیہ کی آمدنی کا منافع بخش ذریعہ بن چکی ہے ۔ صہیونی عقوبت خانوں میں سخت اذیت میں مبتلا نے گناہ خواتین ، نوعمر بچے اور بچیوں پراسرائیلی فوجی خطرناک ادویات آزما رہے ہیں جن کی وجہ سے متعدد قیدی مہلک امراض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ جیلوں میں مسلمان خواتین کیلئے تشدد سے بڑا مسئلہ صنفی امتیاز کانہ ہونا ہے کیونکہ خواتین خصوصاََ نوجوان لڑکیوں کو مردوں کی بیرکوں میں ٹھونس کرسخت جسمانی تشدد کانشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بہت سی خواتین شہید بھی ہوئی ہیں ۔

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ عراق پر امریکی حملہ ہو یاافغانستان کیخلاف نیٹوکارروائی ، مسئلہ فلسطین ہو یا پھر کشمیر ، مسئلہ بوسنیا ہویا چیچنیایا پھر برما اقدام متحدہ کی طرف سے ان ممالک میں قیام امن کیلئے اپنی ہی قرار دادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ دکھائی نہیں دیا۔ دنیا بھر کی طرح فلسطین سے بھی اسلامی کو ختم کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔

عالمی برادری اورانسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ان مظالم پر صرف لفظی مذمت کرنے پر کیوں اکتفا کررہے ہیں ؟ بے گناہ فلسطینیوں پر ہونے والی صہیونی جارحیت اور بربریت کاسلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کیا صہیونی درندے مظلوم دفلسطینیوں کوشہید کرکے جذبہ حریت کو دباپائیں گے ؟ عرب لیگ اور دیگر مسلم ممالک کی طرف سے ہیچکچاہٹ کامظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے ۔

صہیونی معیشت کا پہیہ امریکی امداد سے ہی رواں دواں ہے اور اسرائیل آج اسلحہ پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک بن چکا ہے ، اس کاوجود دراصل انگریزوں کا ہی مرہوں منت ہے ، یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو حکومت کے جنگی جنون کا خمیازہ اسرائیلی عوام پر بجلی بن کر ٹوٹ رہا ہے ۔ امریکہ ایک طرف مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاریوں میں سینکڑوں نئے مکانات کی تعمیر کے اسرائیلی منصوبے پر تنقید کررہا ہے لیکن دوسری طرف اگردیکھا جائے تو امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی جنوری 2017 ء میں ہی بیت المقدس میں 30ہزار سے زائد نئے مکانات بنانا چاہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں اسرائیلی حکومت نے اپنے بجٹ میں 5 سو گنا اضافہ کردیا ہے ۔

مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لئے کوشاں اقوام متحدہ ، امریکہ ، یورپی یونین اور روس پر مشتمل گروپ (کوراٹیٹ ) نے بھی حال ہی میں اسرائیل کی نئی یہودی آباد کاری کے منصوبے پر تنقید کی تھی لیکن مقام افسوس ہے کہ اسرائیل مسلسل اپنی ہٹ دھرمی اور جارحیت سے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اسرائیلی ظلم وبربریت پر عالم اسلام کی خاموشی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ، لہٰذا مسلم ممالک کو اسرائیلی جارحیت کیخلاف عالمی سطح پر زور احتجاج کرنا ہوگا۔

عالم اسلام کادفاع اور مظلوم مسلمانوں کی مدد ہم سب پر فرض ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم صلاحتیں دین اسلام کی ترویج اورامت مسلمہ کے تحفظ کیلئے وقف کر دیں ۔ عالمی برادری کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادیاں قائم نہ کرنے کے مطالبات کویکسر مسترد کرنے پر اسرائیل کیخلاف کارروائی کرنااشد ضروری ہے ۔ مشرق وسطی میں قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کواپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے فلسطین میں اسرائیلی مظالم رکوانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Israeli Barbariat Par Aqwam e Muthida Khamosh Tamashai Kiun is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 December 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.