فلسطینی حرم الشریف میں دوبارہ داخل

تلاشی کا متنازع نظام ختم

بدھ 9 اگست 2017

Falasteeni Haram Sharif Main Dubara Dakhil
رمضان اصغر:
اسرائیل کی جانب سے منتازع سکیورٹی آلات ہٹائے جانے کے بعد فلسطینی شہری ایک بار پھر مسلمانوں اور یہودیوں کے مشترکہ مقدس مقام حرام الشریف میں داخل ہورہے ہیں۔ دو ہفتوں تک بائیکاٹ اور احتجاج کے بعد عبادت کرنے کے لیے فلسطینی شہری وہاں جمع ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے یہ اقدامات چند روز قبل اسرائیلی پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد کیے گئے تھے۔

فلسطینیوں کی جانب سے سکیورٹی کے نظام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور کہا تھا کہ یہ اسرائیل کی طرف سے حرم الشریف جسے ٹیمپل ماؤنٹ کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ آخری رکاوٹیں ہٹانے جانے کے بعد فلسطینی عبادت کے لیے وہاں داخل ہونے سے قبل نعرے لگارہے تھے اور خوشی سے رقص کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

حرم الشریف کے باہر جھڑپیں ہوئیں یہ اس وقت ہوا جب پولیس نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور آنسو گیس استعمال کی۔

فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کاروائی اس وقت کی جب ان پر ہجوم کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا تھا۔ فلسطینی حکام نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک ہر قسم کا تعاون ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جب تک وہ نئے اقدامات کو منسوخ نہیں کرلیتا۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اردن نے سفارتی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔

کیا اسرائیل کی حکومت نے حرم الشریف میں داخل ہونے والوں کی چیکنگ کے لئے لگائے جانے والے آلات کو مکمل طور پر ہٹائے جانے کے فیصلے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس صورتحال پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں وزیراعظم بن یامین تین یاہو کو ایک ایسی کابینہ کے سامنے مشکل کا سامنا ہوگا جس میں اکثریت دائیں بازو کے حامی ہیں۔ وزیرتعلیم نیتلی بینیٹ کا بیان ہے کہ اس بحران سے اسرائیل کمزور ہو کر نکلا ہے ۔

اسرائیلی فوج کے ریڈیو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کے ذریعے اسرائیل کی ٹیمل ماؤنٹ پر خود مختاری کا پیغام دیتا اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ اسرائیل کی خود مختاری پر سوال ہوسکتا ہے۔ فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا ہے کہ مشرقی یروشلم کے حساس مذہبی مقام پر میٹل ڈیٹیکٹر ہٹائے جانے کے باوجود وہ اسرائیل کے ساتھ رابطے منجمد رکھیں گے۔

میٹل ڈیٹیکٹر لگائے جانے پر فلسطینیوں کی جانب سے خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں کیونکہ اس کے خیال سے یہ اسرائیل کا کہنا تھا کہ ہتھیاروں کے اند ر لائے جانے کو روکنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا اور اب اس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس متبادل کے طور پر کم مداخلت والی نگرانی کے منصوبے ہیں ۔ خیال رہے کہ طرفین پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے مقدس مقام پر جاری تنازع کو حل کرنے کا دباؤ ہے۔

اس مقام کو یہودی ٹیمپل ماؤنٹ اور مسلمان حرم الشریف کہتے ہیں۔
14 جولائی کو دو اسرائیلی پولیس اہلکار کی اسرائیل عرب نژاد بندوق بردار کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد عارضی طور پر دودنوں تک بند رہنے کے بعد جب اس مقام کو دوبارہ کھولا گیا تو اس کے داخلے پر میٹل ڈیٹیکٹر ز لگے ہوئے تھے کس کے بعد فلسطینیوں نے اس احاطے کا بائیکاٹ کیا اور انھوں نے مسجد کے بجائے قدیم شہر کے باہر گلیوں میں نماز ادا کرنا شروع کردی۔

اس کے بعد دنوں میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں ہونے والی جھڑپوں میں چار فلسطین مارے گئے جبکہ تین اسرائیلی شہریوں کی ایک فلسطینی نے چاقو مار کر ہلاک کردیا۔ بین الاقوامی خدشات کے درمیان اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ وہ میٹل ڈیٹیکٹرز کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اور دوسرے ذرائع استعمال کریں گے۔ لیکن صدرعباس اور اس احاطے کی نگرانی کرنے والے سینئر مسلم علما نے اس تبدیلی کر مسترد کردیا ہے اور کہا کہ دس دن قبل حملے سے پہلے جو انتظامات تھے وہی واپس لائیں جائیں۔

فلسطین رہنما نے کہا کہ یہ ضروری ہے تاکہ یروشلم میں حالات معمول پر آجائیں اور ہم دوطرفہ تعلقات کے متعلق اپنے کام کو ازسرنو جاری کرسکیں۔ وقف نے بھی کہا تھا کہ مسلمان اس جگہ عبادت کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے اور اس مقام کے باہر گلیوں میں عبادت کریں گے۔ حرم الشریف اسلام اور یہودیت کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ دو یہودی مزاروں کا مقام ہے جبکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پیغمبر اسلام نے معراج سفر کیا تھا۔

یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت نے فلسطینی مسلح گروہ حماس کو دہشت گردوں تنظیموں کی فہرست میں رکھنے کے اٹھائیس ملکی بلاک کے فیصلے کے توثیق کردی ہے۔ یورپی عدالت انصاف نے جنرل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردیا جس میں کہا گیا تھا کہ حماس کے ارکان پر سفری پابندیوں اور اس کے اثاثے منجمد رکھنے کے بارے میں شواہد ناکافی ہیں۔ یورپ کی اس ذیلی عدالت نے دو ہزار چودہ میں کہا تھا کہ حماس دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا فیصلہ اخباری اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا اور اس میں کسی ادارے کا فیصلہ موجود نہیں ہے۔

لکزمبرگ میں قائم یورپی عدالت انصاف نے بدھ کو اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی فریاد گروہ کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے وقت کسی متعلقہ ادارے کا فیصلہ درکار ہوتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ کسی تنظیم یا فرد کانام اس فہرست میں برقرار رکھنے کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے کہا اس کے فیصلے میں اس بات کو توثیق کی گئی ہے کہ یورپی یونین کسی شخص یا تنظیم کا نام دہشت گرد کاروائی میں ملوث ہوسکتا ہے۔

یورپی عدالت انصاف نے کہا کہ وہ یہ مقدمہ واپس ذیلی عدالت کو بھیج رہی کہ وہ ان حقائق اور دلائل پر ازسرنو غور کریں جن سے دو ہزار چودہ کے فیصلے میں صرف نظر ہوگیا تھا۔ ایک اور فیصلے میں یورپی عدالت انصاف نے سری لنکا کی تامل ٹائیگر تنظیم کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے ذیلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
اڑتالیس سال قبل جب ایک آسٹریلوی یہودی مایکل روہن نے ، اسرائیلی حکام اور فوج کی ایماء اور اعانت کے ساتھ مسجد اقصی میں آگ لگائی تھی اور صلاح الدین ایوبی کے دور کا آٹھ سو سالہ تاریخی منبر جل کر خاکستر ہوگیا تھا تو پورا عالم اسلام غم و غصہ کے جذبات کی آگ سے بھڑک اٹھا تھا اور فوری طور پر57مسلم ممالک کے سربراہ رباط میں جمع ہوئے تھے۔

25 ستمبر 1969 کو شروع ہونے والی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر میں رباط میں تھا۔ یروشلم سے جو فلسطینی آئے تھے ان کا کہنا تھا کہ 12 اگست کو مسجد اقصی میں آگ بجھانے کیلئے اگر یروشلم اور غرب اردن کے مسلم اور عیسائی فلسطینی فوراََ دوڑے نہ پہنچتے تو پوری مسجد اقصی راکھ ہوجاتی اور آگ گنبد خضرا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ وہ اس بات پر آگ بگولاتھے کہ فلسطینی جب آگ بجھانے کے لئے آئے تو انہیں روکنے کے لئے اسرائیلی حکام اور اسرائیلی فوج نے حرم الشریف کا دروازہ بند کردیا لیکن بپھرے ہوئے فلسطینی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور آگ بجھائی۔

رباط کی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ، مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے مسلم سربراہوں کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور القدس کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرنے کے لئے مسلم اتحاد کا لاجواب عزم تھا۔ فیتھن یاہو کی حکومت نے حرم الشریف کے احاطہ کے سامنے میٹل ڈیٹیکٹر کی تنصیب کے سلسلہ میں بہانہ پچھلے دنوں احاطہ کے باہر اسرائیلی پولیس کے دو سپاہیوں کے قتل کے بعد سکیورٹی کا بنایا ہے لیکن دراصل ان کا مقصد حرم الشریف کے احاطہ کے باہر اپنا قبضہ جمانا ہے اسی طرح جس طرح یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر کے ذریعہ ارض فلسطین پر قبضہ جمایا گیا ہے۔

اس کا مقصد فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی سے بھی روکنا ہے اور یہودیوں کے اس گروپ کو شہہ دینا ہے جو اپنے آپ کو ٹیمپل ماونٹ وفادار کہلاتے ہیں۔ 1990 میں اس گروپ نے حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ گنبدصغرا کے نیچے یہودیوں کی عبادت گاہ تھی جو مسمار ہوگئی تھی، یہودیوں اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کی بازیابی کے لئے حرم الشریف کی اس پہاڑی کو کھودنا چاہتے ہیں۔

حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گا ہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں 20 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔
انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی،یہود ونصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948 کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔

اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیل فلسطین کے 78 فیصد رقبے پا قابض ہوگیا، تاہم مشرقی یروشلم اور غرب اردن کے قبضے میں آگئے۔ جون 1967 میں تیسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔
یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اس لیے اسے ”دیوار گریہ“ کہا جاتا ہے۔

اب یہودی مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین پر غاصب یہودیوں کی نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہوگئی۔ 1930ء تک نازی جرمنی کے یہودیوں پر مظالم کی وجہ سے اس میں بہت اضافہ ہوگیا۔1920،1921 ، 1929 اور 1936ء میں عربوں کی طرف سے یہودیوں کی نقل مکانی اور مسلمانوں کے اس علاقے میں آمد کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ سلسلہ جاری رہا۔

1947ء ،میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کرکے ایک ارب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
برطانیہ نے اس علاقے سے 1948 میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ جو فلسطینی ریاست کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا۔ عربوں نے تقسیم کو نامنظور کردیا اورمصر،اردن،شام ،لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کردیا، تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔

بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا ۔ 1948 میں ناجائز اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب اور اسرائیل میں پہلی بار ایک دوسرے سے ٹکرائے اور ٹکراو کو ”عرب اسرائیل جنگ 1948ء کا نام دیا گیا جبکہ اسرائیلی اسے ”جنگ آزادی“ کہتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کی وجہ سے فلسطینی عربوں کو مجبوراََ اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔

14 اور 15 مئی 1948 کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ عربوں نے اس ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مصر،شام،اردن،لبنان اور عراق کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ اسی وقت 7 لاکھ فلسطینی اپنے علاقوں کو چھوڑ کر لبنان اردن،مصر اور غرب اردن کے علاقوں میں پناہ گزین کیمپوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

1949 ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کئے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کرلیا، جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ تاہم ان دونوں عرب ممالک نے فلسطینیوں کو اٹانومی سے محروم رکھا۔ 29 اکتوبر 1958ء کو اسرائیل نے صحرائے سینا پر حملہ کر اسے مصر سے چھین لیا۔ اس حملے میں برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ 6 نومبر کو جنگ بندی عمل میں آئی۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ایک عارضی صلح کا معاہدہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوا جو 19 مئی 1967 ء تک قائم رہا جب مصر کے مطالبے پر اقوام متحدہ کے فوجی دستے واپس بلالئے گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Falasteeni Haram Sharif Main Dubara Dakhil is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.