یورپ میں شامی مہاجرین کا بڑھتا ہوا دباوٴ

یورپی یونین اور ترکی نے شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے کے لیے باہمی معاہدے کئے ہیں۔ یورپی یونین نے شامی مہاجرین کے دباوٴ سے نمٹنے کے لیے ترکی کو بھاری فنڈز فراہم کئے ہیں ۔ اس کے باوجود شامی مہاجرین بہتر مستقبل کے لیے

جمعرات 24 مارچ 2016

Europe Main Shaami Mohajrin Ka Bharta Hua Dabao
Dasha Afanasieve :
یورپی یونین اور ترکی نے شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے کے لیے باہمی معاہدے کئے ہیں۔ یورپی یونین نے شامی مہاجرین کے دباوٴ سے نمٹنے کے لیے ترکی کو بھاری فنڈز فراہم کئے ہیں ۔ اس کے باوجود شامی مہاجرین بہتر مستقبل کے لیے یورپ کے خطرناک سفر کے دوران اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں مگر ایک اور کمیونٹی افغان مہاجرین موجودہ حالات میں خود کو نظر انداز کئے جانے پر سخت تشویش میں مبتلا ہے۔


افغان مہاجرین کو یورپ میں قانونی آبادکاری کے مواقع یا ترکی میں کام یا مدد فراہم کرنے کو رد کر دیاگیا ہے۔ افغان مہاجرین کی ایک تہائی تعداد اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر چھوٹی کشتیوں پر ترکی ساحل سے ہجرت پر مجبور ہو چکی ہے۔ ترکی میں ہونے والے حالیہ سمٹ میں یورپی یونین کی جانب سے شامی مہاجرین کے لیے تین بلین یورو کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ وہ 2.7 ملین شامی مہاجرین کے دباو کا مقابلہ کر سکے۔

(جاری ہے)


دوسری جانب افغان مہاجرین سخت پریشانی میں مبتلا ہیں کہ ترکی میں انہیں فنڈز سے میڈیکل اور تعلیمی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے سے روکا جا رہا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے ترکی کے لیے نمائندہ کیٹی پیری کاکہنا ہے کہ یورپی یونین کے اجلاس میں سرے سے ہی اس موضوع بنایا گیا ہے ۔اگر شام کا بحران حل ہو بھی گیا تو ہنوز مہاجرین کا بحران موجود رہے گا۔

ترکی میں مہاجرین کی بڑی تعداد کو اپنے حقوق کی فراہمی دستیاب نہیں ہو سکے گی۔
افغان مہاجرین کا میڈیا کے ساتھ انٹرویو میں کہنا ہے کہ انہیں پچھلے کئی سالوں سے یواین پناہ گزین ایجنسی کی جانب سے انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جا رہا حالانکہ یہی وہ ایجنسی ہے جو عام طور پر ان کے مہاجرین کے درجے کا تعین کرتی رہی ہے۔ اب انہیں یکسر نظر اندا زکر دیا گیا ہے۔


پولاٹ کزیلیڈاگ ترکی میں پناہ کی تلاش میں آنے والے مہاجرین کی رجسٹریشن کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین اب ترجیح کے اعتبار سے شامی مہاجرین کے بعد آتے ہیں کیونکہ ترکی ان کے راستے میں آنیوالا تیسرا ملک ہے جبکہ ان کا مہاجرین کا درجہ دوسرے ملک ایران میں بنتا ہے ۔ انٹرنیشنل انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ ایرانی فورسز نے ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔


45 سالہ نجیب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کو اپنی قیام گاہ بنانا چاہتا ہے لیکن یہاں اس کے لیے کسی قسم کی مدد موجود نہیں ہے۔ اب وہ یونان پہنچ کر ایجین سمندر کے ذریعے غیر قانونی طور پر اپنے چار بچوں کے ساتھ یونانی سرحد عبور کرکے یورپ جانا چاہتا ہے۔وہاں اسے کام ملنے کی پوری امید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی آنے والے لاکھوں شامی پناہ گزینوں بہتر مستقبل کے لیے یورپ کو اپنی آخری منزل سمجھتے ہیں۔


ترکی میں یواین کی ترجمان سلین یونل کاکہنا ہے کہ یہاں سب سے زیادہ قابل رحم حالت افغان مہاجرین کی ہے۔ وہ اب بھی ان کے انٹرویوز کرتی ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے 500 افغانوں کے انٹرویو کئے۔ اقوام متحدہ کی فہرست میں غیر شامی پناہ گزینوں کی تعداد 254000 ہے۔
63000 سے زائد افغان پچھلے سال ترکی آئے تھے جو 2014 کے مقابلے میں 15652 زائد ہیں۔ان میں دہ مہاجرین بھی شامل ہیں جنہیں کی باقاعدہ رجسٹریشن کی گئی ۔

ا ن میں سے بعض براہ راست افغانستان سے اور کچھ ایران کے ذریعے آئے مگر آباد ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
کرکالے ترکی دارالحکومت انقرہ کے قریب آباد کئی سیٹلائٹ ٹاوٴن میں سے ایک ہے جنہیں رجسٹرڈ افغان کو رہنے کی اجازت ہے۔ 35سالہ حاکمہ رضائی کا کہنا ہے کہ وہ یورپ جانے کے لیے کوشاں ہیں جہاں وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ دوبارہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں۔
افغان باشندے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے افغانستان کو چھوڑ کر بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانا چاہتے ہیں۔2015 میں سکیورٹی کی وجہ سے 11000 افغان شہری بلاک یا زخمی ہو گے جبکہ بڑھتی ہوئی کرپشن نے بھی انہیں مستقبل سے مایوس کر رکھا ہے۔ جنگ سے تباہ حال افغان معیشت آبادی کی اکثریت کو کام فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Europe Main Shaami Mohajrin Ka Bharta Hua Dabao is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 March 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.