ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے محرکات

16 سال بیشتر امریکہ کی مشہور کارٹون سیریز سمپنز کی مارچ 2000ء میں دکھایا جاتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کا دیوالیہ نکل گیا کیونکہ ان کے دور صدارت میں امریکہ کو بہت زیادہ بجٹ خسارہ ملا۔ اب کارٹون سیریز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کا دیوالیہ نکلتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو ان کی معاشی پالیسیاں کریں گی مگر کبھی کبھار مذاق میں کہی ہوئی یا دکھائی ہوئی پیشگوئیاں قدرت سچ بنا کر منظر عام پر لے آتی ہے

جمعرات 17 نومبر 2016

Donald Trump Ki Jeet
نعیم قاسم:
16 سال بیشتر امریکہ کی مشہور کارٹون سیریز سمپنز کی مارچ 2000ء میں دکھایا جاتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کا دیوالیہ نکل گیا کیونکہ ان کے دور صدارت میں امریکہ کو بہت زیادہ بجٹ خسارہ ملا۔ اب کارٹون سیریز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کا دیوالیہ نکلتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو ان کی معاشی پالیسیاں کریں گی مگر کبھی کبھار مذاق میں کہی ہوئی یا دکھائی ہوئی پیشگوئیاں قدرت سچ بنا کر منظر عام پر لے آتی ہے۔

چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے امریکہ کے ڈیپ سی (Deep Sea) کے امیدوار کو شکست دی ہے۔ لہٰذا امریکی ایلیٹ، میڈیا اور نیوکانز کو ٹرمپ کی جیت کیسے ہضم ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہلیری کلنٹن شکست کے فوراً بعد اپنے حامیوں کے جذبات کوٹھنڈا کرنے کی کوشش نہیں کی جس پر کئی ریاستوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کیخلاف ڈیمو کریٹس مظاہرے کر رہے ہیں اور میڈیا اس کی بڑھ چڑھ کر پروموشن کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔

(جاری ہے)

جس پر امریکہ کے 45 ویں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ میڈیا ان مظاہروں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے جو نا انصافی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب میں 279 الیکٹورل کالج کے ووٹ حاصل کر کے امریکی سفید اشرافیہ کی نمائندہ ڈیمو کریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کو شکست دی۔ وہ 228 الیکٹرول کالج کے ووٹ حاصل کر سکیں۔


امریکہ جہاں 97 سال پہلے عورتوں کو ملکی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔ وہاں آج بھی امریکی معاشرہ بے حد لبرل ہونے کے باوجود ایک عورت کو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی سربراہ بنانا پسند نہیں کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عورتوں کے متعلق نازیبا بیانات اور امریکی اداکارہ سلمی ہائیک اور دس بارہ مشہور معروف فلمی اور ماڈلنگ کی دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین کے اس پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کا امریکہ کی عورتوں نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا تاہم ہلیری کلنٹن نے عورت ہونے کے ناطے زیادہ تعداد میں عورتوں کے ووٹ حاصل کئے۔


پیوریسرچ کی رپورٹ کیمطابق روایتی طور امریکی عورتیں ڈیموکریٹک امیدواروں کو ووٹ دیتی ہیں لہٰذا اس مرتبہ بھی ہلیری کلنٹن کو وہی روایتی 42 فیصد سے لے کر 54 فیصد عورتوں کے ووٹ ملے جو گزشتہ الیکشن میں اوبامہ نے حاصل کئے۔ مگر ہلیری کلنٹن کی بدقسمتی کہ ایک تو امریکی معاشرہ اسے نیو کائنز کا نمائندہ سمجھتا ہے جو امریکہ کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے امریکی ملٹری پاور کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں حالانکہ صدر اوبامہ نے ایران کو معاشی پابندیوں میں جکڑ کر اسے ایٹمی ڈیل کرنے پر مجبور کر دیا مگر ہلیری کلنٹن نے جہاں اوبامہ کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا وہیں ہلیری نے شام، عراق کے مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کے عزم کو دہرایا جبکہ اسکے برعکس ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو دنیا کے تنازعات میں الجھنے سے بچنا چاہئیے امریکہ 9/11 کے بعد 500 ارب ڈالرز افغانستان، شام، عراق، لیبیا اور مصر کی تباہی و بربادی میں خرچ کر چکا ہے مگر وہاں پر ابھی تک امن نہیں آیا ہے جبکہ امریکہ کیلئے عراق میں مارے گئے فوجی ہمایوں خان کے والد نے ٹرمپ پر تنقید کی تو ٹرمپ نے کہا اگر وہ صدر ہوتے تو ہمایوں خان کو عراق ہی نہ جانا پڑتا اور وہ امریکہ کی غیر ضروری مہم جوئی کی خاطر جان سے ہاتھ نہ دھو پاتے۔

اسکے علاوہ ٹرمپ کو سفید فام ان پڑھ اور غریب کسانوں نے اس لئے ووٹ دیا کہ ڈیمو کریٹک کی پالیسی ہے کہ ساری دنیا سے ذہین اور امیر لوگ امریکہ آئیں اور امریکی معیشت کو مضبوط کریں۔
پاکستان کے ڈاکٹرز اور انجینئرز پر ہماری حکومت کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر وہ سستی تعلیم پاکستان سے حاصل کرتے ہیں اور بعد میں انکی اکثریت امریکہ، لندن اور گلف ممالک شفٹ ہو جاتی ہے حتیٰ کہ آرمی کے ڈاکٹرز کی اکثریت جو مکمل فری تعلیم حاصل کرتی ہے ان میں سے بھی اکثر غیر قانونی بھگوڑے بن کر ڈالرز اور پاؤنڈز کی خاطر امریکہ اور برطانیہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

امریکی سفید فام غریب اور دیہاتی ووٹرز کی اکثریت نے ٹرمپ کو اس لئے ووٹ دیا کہ وہ غیر ملکی تارکین وطن کی امریکہ میں آمد کیخلاف ہے کہ جو امریکی معیشت پر قابض ہو رہے ہیں اسکے علاوہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرے گا اور سیمنٹ اور سٹیل کی بند فیکٹریوں کو کھولے گا ج۔س سے امریکا میں روزگار کی سطح بلند ہو گی اس کے برعکس ڈیموکریٹک حکومت نے امریکہ کی بند فیکٹریاں چالو کرنے کی بجائے اس کو چائنہ کی منڈی بنا دیا تھا۔

لہٰذا پڑھے لکھے لوگ بھی ڈیمو کریٹیکس کی اس پالیسی کیخلاف تھے کہ امریکی سرمایہ دار چین میں جا کر سرمایہ کاری کریں اور وہاں سے اشیاء امریکہ درآمد ہوں یہاں تک ٹرمپ کا نظریہ عام لوگ کو اپیل کرتا ہے کہ امریکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جنگی مہموں پر پیسے خرچ کر نے کی بجائے اپنے لوگوں کے مفادات کو ترجیح دے تو امریکہ میں معاشی پسماندگی کم ہو سکتی ہے۔


امریکہ میں ٹرمپ کو ووٹ صرف دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والے غریب محنت کشوں نے ہی ووٹ نہیں دیا بلکہ ڈیمو کریٹک حکومت کی پالیسیوں سے نالاں آدھے سے زیادہ امیدوار متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکنز جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ ڈالرز سے زیادہ ہے انہوں نے یو ایس اے ٹو ڈے پولز کیمطابق ٹرمپ کو ووٹ دیئے تاہم کالج اور یونیورسٹیوں کے نوجوانوں کی اکثریت نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیئے کیونکہ انہیں ٹرمپ کا منہ پھٹ ہونا پسند نہیں تھا۔

وہ اوباما اور ہلیری کلنٹن کے مہذب انداز گفتگو اور آداب و اطوار کی پسندیدگی کی وجہ سے ڈیمو کریٹک امیدوار کو ووٹ دینے کی طرف مائل نظر آئے۔ اسکے علاوہ عیسائی عقیدے سے تعلق رکھنے والے پادریوں میں 80 فیصد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت تمام دنیا کے میڈیا ہاؤسز اور سیاسی تجزئیے کار ہلیری کلنٹن کے جیتنے کی پیشنگوئی کر رہے تھے۔

ہلیری نے اپنی انتخابی مہم پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیا جبکہ ٹرمپ کو تو بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کوئی فنڈز نہ دیسے اس نے اپنی جیب سے اپنی مہم چلائی اور سفید فام خوابیدہ ووٹرز کی اکثریت کو پولنگ بوتھ پر لے آیا یہ اوبامہ کیلئے نکلنے والے سیاہ فارم ووٹرز کے ردعمل میں تھا۔ مگر بدقسمتی سے سیاہ فام ووٹر ہلیری کو ووٹ ڈالنے نہیں آیا کیونکہ وہ اسے اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ سمجھتی ہے اور ان کے خیال میں اگر اوبامہ ان کیلئے کچھ خاص نہیں کر سکا تو ہلیری کیا کر سکتی ہے کیونکہ اگر وہ جیت جاتی تو وہ نیو کانز کے نمائندے کے طور پر امریکی سامراج کی نمائندہ بن کر اپنا روایتی کردار ادا کرتی رہتی۔

تاہم مبصرین کے مطابق اگر برنی سینڈر ڈیمو کریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار ہوتا تو تب شاید نتیجہ مختلف ہوتا کیونکہ اسکے سوشلسٹ نظریات ہی ٹرمپ کے سفید فام امریکیوں کی قومیت کے تعصب کا توڑ کر سکتے تھے۔ بہرحال ٹرمپ کی جیت تمام دنیا کیلئے حیران کن اور چشم کشا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Donald Trump Ki Jeet is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 November 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.