چین ‘روس اتحاد امریکہ کے لئے ایک بڑا چیلنج

ٹرمپ کا جارحانہ رویہ سفارتی تنازع کی بڑی وجہ،،، امریکی صدر کے ٹوئیٹر پیغامات دنیا بھر میں غیریقینی کی فضا پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں

بدھ 14 فروری 2018

China russia Ittehad america ky liye barha challenge
محبوب احمد
نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کیخلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی تھی اس نے آج پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے عالمی افق اقتدار کے حصول کےلئے مغربی ممالک کے ہاتھوں ایشیائی اور افریقی ممالک کے عوام کا استحصال کوئی نیا نہیں بلکہ یہ صدیوں سے جاری ہے اور اس کے لیے نت نئے حربے استعمال کئے جارہے ہیں امریکہ اب اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اتحادیوں کی مدد سے شطرنج کی بساط دو براعظموں میں الگ الگ بچھارہا ہے ایک تو جنوبی ایشیاءایران اورچین جوکہ اب عظیم ترجمانی ایشیا کا حصہ بن گئے ہیں اور دوسرا افریقہ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے چھوٹے مگر پر امن اور خوبصورت ممالک جن کو امریکہ نے روس کے خلاف سے یرغمال بنایا ہوا تھا اب امریکہ کے سحر سے نکل رہے ہیں اور اپنے ممالک سے ایسے ایٹمی اسلحہ کوہٹانے کے خواہشمند ہیں جس کی موجودگی سے یہ ممالک سخت خطرات کی زد میں ہیں کیونکہ خطے میں خانہ جنگی اور پرتشدد تنازعات کے باعث جیسے جیسے کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے عالمی ایٹمی جنگ کے خطرات بھی مسلسل بڑھتے جارہے ہیں دیکھا جائے تو حالیہ دنوں میں امریکی حکام نے ایسی دفاعی حکمت عملی کی بنیاد رکھنا شروع کردی ہے جن میں روس اور چین طاقتوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف پیش بندی کرنا شامل ہے چین اور امریکہ کے باہمی مفادات باہمی اختلافات سے کہیں زیادہ اہم ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک امریکہ کے مفادات معیشت اور اقدار کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں چین کو امریکی اقدار کے لئے خطرات کی فہرست میں شامل کرنا اور اس کے ردعمل میں چینی قیادت کی تنبیہہ کہ امریکہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کردے حالات کی سنگین کی طرف اشارہ کررہی ہے ٹرمپ کے صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد سے اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ امریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی کیا ہوگی انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہوکر چینی مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کریں گے امریکی صدر کے ٹوئیٹر پیغامایت اور تائیوان کی صدر سے ٹیلیفونک گفتگو چین کے لیے ایسا پیغام ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ کی چین کے بارے میں پالیسی موجود ہ پالیسی کا تسلسل نہیں ہوگی حال ہی میں ٹرمپ نے تائیوان کی صدر سے فون پر بات چیت کرکے ایک سفارتی تنازعہ کھڑا کردیا تھا نو منتخب صدر نے 4 دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے تائیوان کی صدر سے براہ راست فون پر بات کی تھی ڈونلڈ ٹرمپ اورتائیوان کی صدر تسائی کے درمیان ہونے والی گفتگو دونوں ممالک کے رہنماﺅں کے درمیان 1979 کے بعد ہونے والی پہلی بات چیت ہے صدر ٹرمپ کے انتخابات کے بعد سے بیجنگ کے پالیسی سازیہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایشیا کے بارے میں ٹرمپ کو کون مشورے دے رہا ہے اور ان کی چین کے لئے آئندہ پالیسی کیا ہوگی بیجنگ تائیوان کو اپنا صوبہ قرار دیتا ہے اور اس کی آزاد ریاست کی حیثیت سے پہچان کا باعث بننے والی کسی بھی چیز سے اجتناب چین کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے تائیوان کا امریکہ کے ساتھ کوئی باقاعدہ دفاعی معاہدہ نہیں ہے اس لیے تائیوان کے دفاع کا امریکی وعدہ ابہام میں لپٹا ہو اہے چونکہ یہاں چین کی فوج میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے اس جزیرے کو ایشیا میںکسی بھی حملے سے بچنے کے لئے امریکی حفاظتی چھتری درکار ہوگی موجودہ دور پہلے ہی چین اور تائیوان کے تعلقات کے سلسلے میں انتہائی حساس ہے چینی صدر نے تائیوان پر اقتصادی اور سفارتی دباﺅ بڑھایا ہے لیکن بیجنگ کی تمام تر کوششوں کے باوجود چین کی حمایت یافتہ پارٹی تائیوان میں ہونے والے انتخابات میں ہار گئی انتخابات سے قبل اور بعد میں بھی صدر تسائی نے چین کے ساتھ سٹیٹس کو تعلق برقرار رکھنے کے وعدے کئے ہیں لیکن بیجنگ ان پر بھروسہ نہیں کرتا اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ سرکاری تعلق منقطع کردیا گیا ہے ایسی صورتحال میں تائیوان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کوئی بھی تبدیلی نہایت اہم ہوگی کئی دوسری حکومتوں کی طرح بیجنگ کی حکومت بھی تذبذب کا شکار ہے کیونکہ چین کے لیے تائیوان کی حیثیت سے زیادہ کئی اور سنجیدہ مسائل بھی ہیںجب یہ پتہ چل جائے کہ ٹرمپ اور تسائی کی فون کال کی اہمیت کیا تھی اس کے بعد توقع رکھی جاسکتی ہے کہ چین اس کے جواب میںبہت ساری باتیں کہے گا اس بات میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ امریکہ اور چین کے مستحکم تعلقات پوری دنیا کے مفاد میں ہیں عالمی معیثت و سیاست میں چین کی مستحکم ہوتی ہوئی پوزیشن متعدد ممالک کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا سامنا کرنے کے لئے متعدد ممالک امریکہ اور یورپ پر انحصار کئے ہوئے تھے مگر اب انہیں اندازہ ہوچلا ہے کہ ان دونوں خطوں کے اپنے مسائل ہیں اور اندرونی سطح پر بھی شدید کشمکش پائی جاتی ہے اس لیے ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا امریکہ کو اب تاریخ سے سبق حاصل کرلینا چاہیے کہ جب ایشیا اس کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑا ہوگا ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ چین سے اپنے تعلقات مثبت انداز میں دیکھیں اور انہیں برقرار رکھنے کی پالیسیوں پر عمل کیا جائے یہ وقت ہے کہ سرد جنگ کی دقیانوسی ذہنیت کو ترک کرکے امریکہ چین کے ساتھ مشترکہ اہداف حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے جس میں اختلافات کو ایک حد میں رکھنا دونوں ممالک ہی نہیں بلکہ خطے کی ترقی اور قیام امن کے لئے بہت ضروری ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

China russia Ittehad america ky liye barha challenge is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 February 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.