چین کا غیر متزلزل عزم اور عالمی سازشیں!

پیپلز لبریشن آرمی کا 90 واں یوم تاسیس․․․․ صدرشی کی سرحدی خلاف ورزیوں پر بھارت کو تنبیہہ اور ”پی ایل اے“ کو جنگی تیاری کا حکم کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے

منگل 15 اگست 2017

Cheen Ka Ghair Mutazalzal Azm Aur Aalmi Sazishain
محبوب احمد:
یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوج چین کی ہے لیکن اب اس کی تعداد میں تاریخ کی سب سے بڑی کمی کرنے فیصلہ کیا گیا ہے، لہٰذا تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ چینی فوج کی تعداد 23 لاکھ سے کم ہو کر تقریبا 10 لاکھ ہوجائے گی۔ ماضی میں چینی فوج زمینی جنگ اور ہوم لینڈ ڈیفنس پر زیادہ توجہ دیتی رہی ہے لیکن اب اس میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔

چین نے ”پیپلز لبریشن آرمی“ بری فوج میں کمی کرکے دیگر سروسز میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایئر فورس کے ایکٹو سروس اہلکاروں کی تعداد جوں کی توں ہی رہے گی۔ چین ایک طرف بری فوج کی تعداد میں کمی کررہا ہے تو دوسری جانب بحریہ، سٹریٹجک سپورٹ فورس اور راکٹ فورس کی تعداد میں اضافہ کا ارادہ رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

چین اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ اب دفاع پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لاگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی90 سالہ یوم تاسیس کی تقریبات کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں پر بھارت کو تنبیہہ اور ” پی ایل اے“ کو جنگی تیاری کرنے کا حکم لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

چینی فوج یقینا پارٹی کے جھنڈے کو سر بلند کرتے ہوئے قوم کی امیدوں پرپورا اتری ہے لیکن موجودہ حالات میں چین کو پہلے سے زیادہ مضبوط فوج کی ضرورت ہے ۔ چین اس وقت ایک ایسی طاقتور فورس بنانے کی تیاری میں مصروف ہے جو ہمیشہ جنگ کے لئے تیار ہو،لڑائی کے قابل ہو اور جسے جیت کا یقین ہو۔ چین میں ایٹمی آبدوزیں بنانے کے لئے ”نیو کلیئر سب میرین سپر فیکٹری“میں بیک وقت 5 سے 6 آبدوزوں پر کام کیا جاسکتا ہے اور یہ صلاحیت آبدوز پر کام کیا جاسکتا ہے اور یہ صلاحیت آبدوز سازی کی امریکی فیکٹریوں سے بھی زیادہ ہے جہاں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 4 آبدوزیں تیار کی جاسکتی ہیں۔

چین صرف یہیں پر نہیں رکے گا بلکہ 2020ء تک بیک وقت 10 سے12 آبدوزوں پر کام کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق ”نیو کلیئر سب میرین سپرفیکٹری“ کی بدولت چین آئندہ 3 برس کے اندر ایٹمی آبدوزیں بنانے کی اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا کردگنی کرلے گا۔ واضح رہے کہ ٹائپ 096 قسم کی ایٹمی آبدوزوں سے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن دفاعی ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے بیک وقت 24 بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں سے لیس کیا جاسکے گا۔

بھارت اور چین کے درمیان سرحد کی طوالت 35 سو کلو میٹر ہے،یہ سرحدی لکیر 1890ء کے عشرے میں برطانیہ اور چین کے درمیان معاہدے کا نتیجہ ہے۔ 1949ء سے ہی بھارت اور چین ہمالیہ کے علاقے میں اپنی حیثیت مضبوط بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان تقریبا 4 ہزار کلو میٹر لمبی سرحد پر تنازع پرانا ہے اور1962ء میں دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگ بھی ہو چکی ہے، تین دہائیوں میں بھارت اور چین کی سرحد پر اس طرح کی کشیدگی دیکھنے کو نہیں ملی جواب دیکھنے کو مل رہی ہے۔

چینی حکومت اور ذرائع ابلاغ دونوں ہی جارحانہ لب ولہجے میں بھارت کو تنبیہہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اگر یہ حالات یونہی بگڑتے رہے تو اس کے خطے پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1962ء کے بعدسے بھارت نے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں کافی حدتک اضافہ کیا ہے لیکن چین کے مقابلے میں بھارت کچھ بھی نہیں کیونکہ تبت اور اس پورے خطے میں چین کا جو بنیادی ڈھانچہ ہے وہ بھارت سے 100 فیصد زیادہ ہے۔

بھارت کی جو فوجی صلاحیت ہے اسے حساب سے وہ چین کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا اسے حالات میں بھارت کی چین کو دھمکیاں اور سرحدی خلاف ورزیاں سمجھ سے بالاتر ہیں، اگر صورت حال بگڑتی ہے تو بھارت چین کا مقابلہ بہت مشکل سے کر پائے گا۔ ملکی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت کے سلسلے میں بھارت کو چینی فوج کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

چین اپنی خود مختاری اور سرحدوں کی حفاظت کو مستقل بنیادوں پر مضبوط کر رہا ہے، یہاں یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ پہاڑ ہلانا آسان جبکہ لبریشن آرمی کو ہلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ چینی فوج کی دفاعی صلاحیتوں میں مسلسل مضبوطی اور بہتری آئی ہے، لہٰذا حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بھارت کو چاہیے کے چین کی خود مختاری کو چیلنج کرنے سے گریز کرے۔

پیپلز لبریشن آرمی کے 90 ویں یومِ تاسیس کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور مہمان خصوصی شرکت ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ چین اور پاکستان کو یکساں چیلنجز کا سامنا ہے لیکن یہ دونوں ممالک اپنی سالمیت اور خود مختاری کی حفاظت کیلئے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک اہم سٹریٹجک شراکت دار ہیں، دفاعی تعاون اور مشترکہ منصوبے پاک چین دوستی کی علامت ہیں اور یقینا پاک فوج اور پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان پیشہ ورانہ تعاون مزید بڑھے گا۔

امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک کے گٹھ جوڑ اور پالیسیوں کین وجہ سے ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار رہنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورتحال مسلسل تنزلی کا شکار ہے لیکن یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ چین نے نیوکلیئر سپلائزر گروپ، مسئلہ کشمیر،شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت سمیت ہر معاملے میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اب دونوں ممالک کا سفارتی و دفاعی تعاون جاری رکھتے ہوئے سی پیک کو ہر قیمت کامیاب بنانے کا عزم قابل تحسین ہے۔

چین کا ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مذموم عزائم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہورہا ہے۔ ”ون بیلٹ ون روڈ“ منصوبہ یقینا معاشی بحران میں امید کی ایک نئی کرن ہے کیونکہ اس عالمی معاشی منصوبے کی تکمیل سے پسماندہ اور دور افتادہ ممالک کی معیشت مستحکم ، غربت و افلاس کے عفریت کا خاتمہ، اقوام عالم اور تمام ریاستوں کے مابین معاشی رابطوں کے ذریعے ترقی و خوشحالی کا ایک ایسا انقلاب آئے گا کہ جس سے یہ ترقی پذیر ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔

چین اور پاکستان اہم بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر یکساں مئوقف رکھتے ہیں، آج چین اور پاکستان کی انمول دوستی، اقتصادی اور دفاعی ترقی کے اقدامات کئی ممالک کو کھٹک رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات بھی ان دنوں شدید تلخیوں کا شکار ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تقریباََ 4 ہزار کلومیٹر سرحد کے کئی مقامات پردیرینہ تنازع ہے جس پر ایک بار جنگ بھی ہوچکی ہے ، حال ہی میں چین نے بھارتی فوج کی جانب سے تبت اور سِکم کے درمیانی علاقے میں دراندازی کے بعد سکیورٹی خدشات کے باعث بھارت کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ سرحدی خلاف ورزیوں سے گریز کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Cheen Ka Ghair Mutazalzal Azm Aur Aalmi Sazishain is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.