چربی زدہ ذہن

لگتا ہے پوری دنیا اسلام کو مٹانے پر تل بیٹھی ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں بچا جہاں مغربی استعماری طاقتیں تخریب کاری میں ملوث نہ ہوں۔ شام کے پیچھے تو امریکہ اور اسکے حواری پڑے ہی تھے۔ اور انہیں ترکی کی ترقی، خوشحالی اور شادابی بھی کھٹکنے لگی

جمعرات 3 دسمبر 2015

Charbi Zada Zehen
عارفہ صبح خان
لگتا ہے پوری دنیا اسلام کو مٹانے پر تل بیٹھی ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں بچا جہاں مغربی استعماری طاقتیں تخریب کاری میں ملوث نہ ہوں۔ شام کے پیچھے تو امریکہ اور اسکے حواری پڑے ہی تھے۔ اور انہیں ترکی کی ترقی، خوشحالی اور شادابی بھی کھٹکنے لگی۔ گزشتہ چار پانچ سالوں سے بالخصوص دو سالوں سے مغرب اس تاک میں تھا کہ اسے موقع ملے اور وہ ترکی کو ملوث کر کے حملے کا جواز پیدا کرے۔

اگر مواقع نہ بھی ہوں تب بھی اسلام دشمن خود مواقع پیدا کرلیتے ہیں مثلاً روس کا دیدہ وا دانستہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا۔ ظاہر ہے کہ دفاع کا حق ہر ملک کو حاصل ہے۔ وارننگ کے باوجود نہ ماننے پر ترکی نے روسی جہاز گرادیا۔ روس نے خود یہ موقع دیا اور پھر دھمکیوں پر اتر آیا۔

(جاری ہے)

پہلے تو ترکی بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا مگر پھر ترکی وزیراعظم کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوگیا جو تشویش کی بات ہے روس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔

جنگی جہاز شامی ساحل کے پاس لے آیا۔ شام کے معاملات میں روس کافی عرصے سے دخل دے رہا ہے۔ امریکہ کو لمحہ بہ لمحہ صورتحال کی خبر ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے کہ جس نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور دنیا کا اکیلا ”ماما“ بن بیٹھا مگر جب ان لوگوں نے اسلام کیخلاف سازش کرنی ہو تو ”بھائی بھائی“ بن جاتے ہیں۔ پھر انکے مفادات ایک ہو جاتے ہیں۔

ترکی اور روس کے تنازعہ پر امریکہ فی الحال خاموش ہے گویا یہ نیم رضا مندی ہے۔ مغرب میں جو بھی تخریب کاری ہوتی ہے اسکا الزام مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالے بہیمانہ سلوک پر ہر انسان معترض ہے۔ لیکن اس مرحلے پر باراک اوباما، ڈیوڈ کیمرون، ولادیمر پیوٹن، صدر اولاند اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سبھی کے منہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔

کسی مغربی ملک میں ایک بم دھماکہ ہوجائے تو مغرب ساری دنیا ہلا دیتا ہے۔ خود بے گناہ، مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں بے رحمی سے مار دیتے ہیں لیکن کوئی اف نہیں کرتا۔ مغرب نے مسلمانوں کی حالت حشرات الارض سے بھی بدتر بنا دی ہے۔ جب خود مسلم امہ کو احساس نہیں تو اغیار کو کیا پڑی ہے کہ وہ احتجاج کریں مغرب کے عزائم بتا رہے ہیں کہ وہ تیسری عالمی جنگ کی تیاری کرچکا ہے۔

جب دنیا جہان کا عیش و آرام ہو اور کرنے کو کوئی کام نہ ہو تو پھر دماغ پر شیطان کا بسیرا رہتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے امیج اپنی حرکتوں سے تباہ کر ڈالا ہے۔ مسلمانوں کا جو کردار سامنے آیا ہے۔ وہ بھی نہایت مضحکہ خیز، انتہا پسندانہ ہے۔ دنیا کے نقشے پر موجود 57 اسلامی ریاستوں میں سے 30 ممالک انتہائی غریب، پسماندہ اور جہالت سے بھرے ہوئے ہیں جبکہ 27 اسلامی ریاستیں یا تو امیر ترین اور دولت سے لدی پھندی ہیں یا پھر خاصی خوشحال ہیں۔

امیر ترین ریاستوں میں برونائی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی وغیرہ ہیں۔ دولت کے ذخائر اور وسائل پاکستان، ایران، مصر، افغانستان، شام، لیبیا، میں بھی ہیں مگر یہاں حکمرانوں کی عیاشیوں اور کمزور سیاسی نظام کی وجہ سے دولت کا ارتکاز مخصوص طبقے تک محدود ہے۔ ایران نے کافی حد تک خود کو سدھار لیا ہے لیکن اکثر اسلامی ممالک معدنیات، اجناس اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود محض اس لئے عوام کو غربت زدہ رکھتے ہیں کہ انکے حکمران بد نیت اور کرپٹ ہیں۔

اپنی عیاشیوں پر بے دریغ خزانہ لٹاتے ہیں مگر عوام کو مقروض اور مفلوک الحال بنا رکھا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور اسلامی دنیا آج بھی جہالت میں پھنسی ہوئی ہے۔ مغربی دنیا ایجادات اور دریافتوں میں مصروف ہیں۔ مگر اسلامی دنیا کے جاہل حکمرانوں کو دولت کا جنون اور شادیوں کا شوق، پروٹوکول کا چسکا، نئی نئی گاڑیوں جہازوں ہیلی کاپٹروں میں بیٹھنے کی دیوانگی، غیر ملکی دوروں کی بیماری، زیورات ملبوسات جوتوں ٹائیوں کا کریز اور انواع و اقسام کی مرغن غذائیں کھانے کی طلب ستاتی رہتی ہے۔

مسلم دنیا کے اکثر حکمرانوں کے جسموں پر بھی چربی ہے اور دماغوں پر بھی وافر چربی کی تہیں ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پیٹ دو روٹی اور تن دو کپڑوں سے ڈھک جاتا ہے ۔ ایک چار پائی سونے کیلئے اور ایک چھت سر چھپانے کیلئے کافی ہوتی ہے ایکٹروں میں پھیلے جنات سائز کے محل کے ہر کمرے میں آپ نہ بیک وقت سو سکتے ہیں اور نہ سینکڑوں ملبوسات بیک وقت پہن سکتے۔

انسان کا نام اسکے کئے ہوئے کاموں سے زندہ رہتا ہے۔ عوام کا خون پسینہ نوچ کر، ٹیکسوں اور کرپشن کمیشن سے خریدی ہوئی درجنوں گاڑیاں اور ہیلی کاپٹروں میں آپ ایک ہی وقت میں نہیں بیٹھ سکتے۔ میں تو تب مانتی جب آپکی قبر کا سائز بھی آپکے محل جتنا ہوتا، جب ااپکا کفن بھی کمخواب کا ہوتا، جب آپکی گور بھی مٹی کے بجائے ہیروں سے تراشی ہوتی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اتنا بڑا ملک قرض لیکر چلایا جا رہا ہے۔

آخر کب تک اس ملک میں بھیک کے منصوبے چلتے رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ حکومت نے ڈھائی سال میں 9 ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ لیا ہے۔ ابھی تک صرف آئی ایم ایف، ورلڈبنک، یورپی یونین، امریکہ اور دیگر ممالک سے قرضے لینے کی خبریں ہی آرہی ہیں۔ روز نئے نئے منصوبوں کے افتتاح ہو رہے ہیں لیکن ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ایک بھی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔

روز وزیراعظم، ڈپٹی وزیراعظم، وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خوشحالی آگئی ہے۔ پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ یہ تمام ترقی خوشحالی کامیابی اور مال و دولت صرف حکمرانوں کے گھروں اور بنک بیلنسوں میں آرہی ہے۔ عوام تو جہاں پہلے کھڑے تھے۔ آج اس سے بھی دس قدم پیچھے کھڑے ہیں۔ اس ترقی یافتہ قوم کو صاف پانی تک میسر نہیں۔ لوگ یرقان ہیضے ہیپاٹائٹس سے مر رہے ہیں کیونکہ صاف پانی نہیں۔ صاف پانی ہو نہ ہو مگر اورنج ٹرین اور ڈبل ڈیکرز ضرور چلیں گی۔ لوگ گندے پانی اورآلودگی سے مر جائینگے تو حکمران خود ہی ان میں سیریں کرتے پھریں گے۔ چربی زدہ ذہن ہوجائے تو اس پر کوئی بات اثر نہیں کرتی۔ یہی اوّل اور آخری بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Charbi Zada Zehen is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 December 2015 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.