بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت اور مسلم امہ کی خاموشی

رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان سے اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے لیکن یہ مقدس مہینہ فلسطین کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کیلئے قیامت صغریٰ بن گیا ہے۔ اسرائیل فلسطین پر آسمان سے آگ کی ایسی بارش برسا رہا ہے

جمعہ 25 جولائی 2014

Bharti Hui Israeli Jarhiyat Or Muslim Ummah Ki Khamoshi
محمد ریاض اختر:
رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان سے اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے لیکن یہ مقدس مہینہ فلسطین کے معصوم اور بے گناہ لوگوں کیلئے قیامت صغریٰ بن گیا ہے۔ اسرائیل جنگی جہازوں‘ ٹینکوں ‘میزائلوں اور راکٹوں سے آسمان سے آگ کی ایسی بارش برسا رہا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں مسلمان جام شہادت نوش کر گئے اور ہزاروں زخمی ہو گئےظلم و ستم‘ ناانصافی ‘ دہشت و بربریت اور درندگی کے تمام لفظ اپنی ہیت ترکیبی اور معانی و مطالب کے حوالے سے چھوٹے پڑ گئے۔

کوئی بھی لفظ اسرائیل کی ننگی جارحیت کی صحیح معنوں میں عکاسی نہیں کر پا رہا۔ 16 روز سے جاری اسرائیلی حملوں میں کمی کی بجائے شدت آ رہی ہے اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 600 سے زائد اور زخمیوں کی تعداد 3640 سے تجاوز کر چکی ہے۔

(جاری ہے)

حیرت اور افسوس ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فلسطین اور اسرائیل دونوں سے لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے؟ مہذب دنیا انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیسی لڑائی اور کیسی جنگ ہے جس میں نقصان صرف اور صرف فلسطین کا ہو رہا ہے۔

پرسوں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو سے ملاقات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں اسرائیل سے حملے کم کرنے کا کہا۔ بڑے طاقتور ادارے کے سیکرٹری جنرل کی بے بسی قابل دید ہے وہ حملے ختم کرنے یا روکنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ انہیں محدود کرنے کی ”درخواست“ کر رہے ہیں۔
,,کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا،،
حیرت‘ دکھ‘ تاسف اور افسوس تو مسلمان ریاستوں کے حاکموں پر ہے۔

ان کی مجرمانہ خاموشی ہی دراصل اسرائیل کو شہ دے رہی ہے کہ وہ خود دن بہ دن طاقتور بنا کر اپنے گریٹر اسرائیل ہونے کا اعلان کر دے۔عرب لیگ کا خواب غفلت کا شکار ہونا اور او آئی سی کا مسلسل ”نیند“ میں رہنا اسرائیل کو مزید خونخوار بنانے اورصورتحال کو بند گلی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف دنیا بھر میں اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر احتجاج ہو رہے ہیں جبکہ مسلمان حکمرانوں نے خود کو مذمت تک محدود رکھا ہوا ہے۔

لندن اور پیرس میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ فرانس کی طرف سے اسرائیل کی مذمت اور حملے روکنے کے شدید بیان کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ ہم آج مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کر پا رہے اور ہمارے حصے کا وہ کام بھی عیسائی دنیا کر رہی ہے پورا مغرب فلسطینیوں پر مظالم پر ”بیدار“ ہے اگر نہیں بیدار تو مسلمانان عالم بیدار نہیں ہے ان کی غفلت و بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔

مسلمان ریاستوں کے حکمران نہ جانے کس مصلحت کی بنیاد پر خاموش ہیں۔ پاکستان جو ہمیشہ سے عالم اسلام کی ایک موثر اور طاقتور آواز رہا دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہوئی پاکستان نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا مگر اس پر نقشہ ہی کچھ اور اسلامی دنیا کا یہ قلعہ اپنے کان اور آنکھیں بند کئے نہ جانے کس کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کر رہا۔

اس کی معاشی مجبوریاں ہو سکتی ہیں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو اللہ پاک نے وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ ان کی خاموشی عجیب اور معنی خیز ہیں ؟ یادش بخیر اکتوبر 1973ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو عالم اسلام میں پھو نچال آ گیا اس صورتحال میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کے ہنگامے دورے کئے۔ یہی وہ موقع تھا جس میں پاکستانی قیادت کی طرف سے خلیجی ریاستوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ تیل بطور ہتھیار استعمال کریں بلکہ خرطوم کی تجویز پر خلیجی ممالک نے مغرب میں تیل کی سپلائی بھی روک دی تھی۔

اس نتیجہ خیز قدم کے نتیجے جنگ بندی ہوئی اور مسلمانوں کے مطالبات کے سامنے پوری دنیا کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ان لمحات میں بھٹو مرحوم عالم اسلام کے اہم ترین رہنما کے طور پر ابھرے ان کی سعودی عرب‘ لیبیا ‘ عراق اور شام کی قیادت سے گہرے مراسم ہو ئے۔ اس سے قبل 25 اگست 1969میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی ناپاک سازش کی جس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام متحد ہو گیا ستمبر 1969ء میں مراکش کے شہر رباط میں مسلم قیادت اکٹھی ہو ئی اور او آئی سی کا قیام یہی حادثہ کا باعث بنا۔

1969ء کے بعد سے سرگرم او آئی سی اب مردہ گھوڑے کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عرب لیگ او آئی سی نہ جانے کس مصلحت پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسلامی ریاستوں کے ’‘ذمہ داران حاکمان“ میں صرف ترکی ایسا واحد ملک ہے جس نے مسلمانوں کی ترجمانی کا بھرپور فریضہ انجام دیا ہوا ہے۔ چندسال قبل اسرائیل کی ایسی ہی جارحیت کے دوران طیب اردگان نے واضح موقع اختیار کیا تھا انہوں نے فلسطینیوں کی امداد کے لئے بحری جہاز بھی روانہ کئے ماشاء اللہ اب بھی ترکی کا موقف اور اسٹینڈ اسلامی دنیاکے لئے مشعل راہ ہے۔

اگر عالم اسلام ترک قیادت کی تقلید کرے تو مسلم امہ کو درپیش مسائل میں کمی آ سکتی ہے کل کی نسبت آج میڈیا کے اس بیدار اور روشن دور میں حقائق نظر انداز کرنا یا انہیں پس پردہ رکھنا مشکل ہے۔ عالمی الیکٹرانک چینل اگر کسی مصلحت کے زیر اثر رہ سکتے ہیں تو سوشل میڈیا پل پل اسرائیل کے مظالم کو بے نقاب کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ ‘ امریکہ اور بڑی طاقتیں پس پردہ اسرائیل کی حامی ہیں لیکن تازہ ترین شدید ترین مظالم نے اسرائیل کے حامیوں کو اس سے دور کرنا شروع کر دیا ہے خود تل ابیب میں اسرائیل نوجوانوں کا اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ سوالیہ نشان ہے؟ لندن کے مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی یہودی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی شرکت کیا اسرائیل کے منہ پر طمانچہ نہیں۔


ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ دنیا ایک نئی عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تہذیبوں کے اس تصادم کا آغاز 9/11 کے بعد ہوا تھا۔ امریکہ چونکہ عراق اور افغانستان میں جارحیت کرنے کے باوجود پسپا ہو رہا ہے اور دنیا پھر سے بے کلی ‘ اضطراب اور بے چینی کے میدان کی مسافر بنی ہوئی ہے۔ تہذیبوں کے اس خاموش تصادم کا ایک فریق مسلمانوں کو سمجھ کر مغرب اس پر حملہ آور ہے، 25 جولائی 2012ء کو بھارتی صدر برناپ مکر جی نے حلف اٹھانے کے بعد کہا تھا کہ دوسری عالمی جنگ اور تیسری (سرد جنگ) کے بعد دنیا چوتھی عالمی جنگ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔

بقول بھارتی صدر اس جنگ کا آغاز نائن الیون کے بعد باقاعدہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے سارا ملبہ مسلمانوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی جگہوں پر مسلمان نان اسٹیک ہولڈرز صورتحال پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے خواہش مند ہیں سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل میں دو ہفتوں سے جاری ننگی جارحیت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharti Hui Israeli Jarhiyat Or Muslim Ummah Ki Khamoshi is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 July 2014 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.