بھارت میں خطے کے سب سے بڑے خفیہ جوہری منصوبے کی تعمیر جاری

جوہری منصوبے کوبراہ راست وزیراعظم ہاوٴس سے کنٹرول کیا جا رہا ہے جنگی جنون میں مبتلا ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اب ہائیڈروجن بم بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اس کے لیے ریاست کرنا ٹک میں انتہائی خفیہ طور پر خطے کا سب سے بڑا جوہری شہر تعمیر کیا جا رہاہے

جمعہ 8 جنوری 2016

Bharat Main Khittay k Sab Se Bare Khuffia
رابعہ عظمت:
جنگی جنون میں مبتلا ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اب ہائیڈروجن بم بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور اس کے لیے ریاست کرنا ٹک میں انتہائی خفیہ طور پر خطے کا سب سے بڑا جوہری شہر تعمیر کیا جا رہاہے ۔ اس کا انکشاف امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ کی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2012 میں قائم کئے گئے اس منصوبے کو 2017 میں مکمل کر لیا جائے گا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مذکورہ خفیہ منصوبے کو براہ راست وزیراعظم ہاوٴس سے کنٹرول کیا جا رہا ہے جبکہ اس کی پشت پناہی بھارت کی دو خفیہ ایجنسیاں کررہی ہیں۔اس منصوبے کا بظاہر مقصد حکومت کی جوہری تحقیق کو وسیع کرنا، بھارت کے ری ایکٹرز کے لیے ایندھن پیدا کرنا اور نئی آبدوزوں کی طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔

(جاری ہے)

تاہم امریکی برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ سے بھارت کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جائے گی جسے وہ ہائیڈروجن بم بنانے میں استعمال کر سکتا ہے اور یوں بھارت کی جوہری طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔

ماہرین کے مطابق اگر یہ مکمل ہوگیا تو یہ جوہری مواد افزودہ کرنے، ایٹمی تحقیق اور جوہری ہتھیاروں وائیر کرافٹ کی جانچ کا برصغیر کا سب سے بڑا منصوبہ ہوگا۔ امریکی جریدے کی رپورٹ میں مزید بتایاگیا ہے کہ سول جوہری معاہدے کے باعث بین الاقوامی جوہری معائنہ ایجنسیوں نے اس جانب رخ نہیں کیا۔واضح رہے کہ چند ماہ قبل اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے پاس اس وقت 90 سے 110 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

تاہم امریکی رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کو خفیہ رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہندوستانی عوام اس سے باخبر ہیں اور یہ ایٹمی منصوبہ بھارت کو چین اور پاکستان سے بڑی ایٹمی قوت بنا دے گا۔ یعنی خطے پر تھانیداری کا خواب دیکھنے والا بھارت انتہائی خطرناک اقدام پر اتر آیا ہے اورخطروں سے کھیلنے لگا ہے۔ انتہاپسند بی جے پی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارتی جنگی جنون سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور فرقہ پرست وزیراعظم مودی نے ہائیڈروجن بم بنانے کی تیاریاں کر دی ہیں جس سے خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا آغاز ہو جائے گا۔

امریکی دفاعی تحقیقاتی ادارے آئی ایچ ایس جنیز 360 نے سیٹلائٹ سے حاصل ہونیوالے تصاویر کی بنیاد پر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میسور کے قریب ایک یورینیم افزود گی کے پلانٹ کو توسیع دے رہا ہے جس کے بعد بھارت تھرمونیو کلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق یہ بھی انکشاف ہو اہے کہ یہ پلانٹ 2015 تک آپریشنل ہو جائے گا جس کے بعد بھارت سالانہ 160 کلو ویپین گریڈ یورینیم افزودہ کااہل ہو جائے گا۔

90 فیصد خالص یورینیم کی افزود گی بھارت کی ضروریات سے دوگنا ہے اور اتنی بھاری مقدار میں افزودہ یورینیم ہائیڈروجن بم کی تیاری میں ہی استعمال ہو سکتی ہے۔صدقہ ذرائع کے مطابق نئے پلانٹ کی تنصیب سے فوجی مقاصد کے لیے بھارت کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی جس سے زیادہ تباہ کن ہتھیار تیار کئے جا سکتے ہیں۔امریکی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس خفیہ جوہری پروگرام کی کامیابی کا انحصار ٹیکنالوجی اور آلات کی غیر قانونی خریداری پر ہے جس کا مقصد بھارت پر عائد بین الاقوامی پابندیوں پر قابو پانا ہے۔

ایک اور تجارتی رپورٹ میں بھارتی حکام کے حوالے سے کہا گیاہے کہ میسور کے جوہری پلانٹ کااہم مقصد نئی آبدوزوں کو ایندھن فراہم کرنا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاوٴ کے خلاف کام کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے ،جبکہ امریکی گروپ نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ اگر یہ نئی تنصیب ہے تو اس مخصوص پلانٹ میں یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت دنگی ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ نئی دہلی کی جانب ان سے جوہری تنصیبات کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں کر گئیں۔میسور کے قریب بنائے جار ہے اس جوہری سٹی کے حوالے سے بھارتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انتہائی اعلیٰ درجے تک افزودہ یورینیم بھارتی جوہری آبدوزوں کے لیے ایندھن فراہم کرے گی۔بھارت نے 1998 میں جوہری تجربے رکئے تھے جس کے کچھ عرصہ بعد پاکستان نے بھی کامیاب ایٹمی تجربہ کر لیا تھا۔

بھارت پر بین الاقوامی پابندیاں اس لئے لاگو نہیں ہوتیں کہ اس کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو نیوکلیئر پرولیفریشن ٹریٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ امریکی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق خفیہ جوہری مرکز کی تعمیر کا اس وقت علم ہو اجب کرناٹک کے مذکورہ علاقے میں کھدائی کی جارہی تھی جسے دیکھ کر وہاں کے خانہ بدوش قبیلے ششدر رہ گے تھے اور مقامی شہریوں کو انکشاف اس وقت ہوا جب انہیں یہ معلوم ہو اکہ اس منصوبے کی نگرانی دو خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔

چونکہ یہ جوہری تنصیبات فوج کے زیر انتظام ہیں اس لیے بین الاقوامی اداروں کو بھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔ امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ کے بقول چھلا کر کے دیہاتیوں کی طرح بھارتی ارکان پارلیمنٹ بھی اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔دو مرتبہ بھارت کی مرکزی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے والے ایک معروف سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بھارت میں ارکانِ اسمبلی کو شازونادر ہی ملک کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کچھ بتایا جاتا ہے۔

”سچ پوچھیں تو ہمیں پارلیمنٹ میں زیادہ معلومات نہیں دی جاتیں اور اگر ہمیں اس قسم کی خبروں کا علم ہوتا بھی ہے تو وہ مغربی ممالک کے اخبارات سے ہوتا ہے۔“ سابق رکن اسمبلی اور وزیر ماحولیات جیانتھی نتار نجن نے بھارتی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ اور دیگر بھارتی اراکین اسمبلی میں سے بارہا جوہری امور پر سوالات اٹھا چکے ہیں لیکن ہمیں کبھی کوئی خاصی کامیابی نہیں ہوتی۔

“ سابق اسٹریلوی عدم پھیلاوٴ کے سربراہ جارن کارلسن کے مطابق بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے لئے جوہری مواد پیدا کر رہا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی طرف سے افزودگی کی کوششیں گزشتہ چار سال سے ہو رہی ہیں اور یہ میسور کے قریب چھلا کرے کے جنوب میں 160 میل کے فاصلے پر بھارت کا دوسرا خفیہ ائیر میٹریل پلانٹ میں جاری ہے۔

آئی اے ای اے کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ کیلے کا کہنا ہے کہ بھارت تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں کی طرف جا رہا ہے۔امریکہ بھارت کے نیوکلیئر معاہدے کے بعد ہی کرناٹک کی حکومت نے خفیہ طور پر 4290 ایکڑ زمین ڈی آر ڈی اور کولیز کر دی تھی اور مزید 573 ایکڑ زمین اس مقصد کے لیے دی گئی تھی۔2012 کے بعد بھارتی فوج کو کرناٹک میں مزید دس ہزار اراضی الاٹ کی گئی تھی جس پر 25 سو فوجیوں کے لیے گھر بھی بنائے گے ہیں۔

بھارت نے فرانس، روس اور قازقستان سے بھی 4914 ٹن یورینیم حاصل کیا ہے۔اس خفیہ جوہری سٹی کی تعمیر کیلئے سینکڑوں برسوں سے آباد قبائل کو بھی یہاں سے بے دخل کیا گیا ۔زمین پر غیر قانونی قبضے کے خلاف ایک ماحولیاتی گروپ نے قانونی طور پر آواز اٹھانے کی کوشش کی تو حکام نے اس کو خبردار کیا کہ وزیراعظم ہاوٴس کی طرف سے اس منصوبے کو چلایا جا رہا ہے اس لیے لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں۔

اس سلسلے میں کسی بھی قانونی جنگ میں جیتا نہیں جا سکتا ۔ دوسری جانب بھارت اور روس کے مابین اربوں ڈالر کے 16دفاعی معاہدے طے پائے ہیں اور روس بھارت کو انتہائی جدید میزائل سسٹم بھی فراہم کرے گا جس کی مالیت 39 کھرب روپے ہے۔معاہدے کے تحت روسی ہیلی کاپٹر کاموف 226 بھارت میں تیار کیا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے دورہ روس کے دوران مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر دلادی میرپیوٹن نے کہا کہ براہموس میزائل بنانے میں روس کا بھارت کے ساتھ کامیاب تعاون رہاہے۔

روس بھارت میں 6 جوہری پلانٹ بھی لگائیگا۔ بھارتی وفاعی فرم انڈیاریلائنس ڈیفنس نے ائیرڈیفنس سسٹم تیار کرنے والی روسی فرم الماز آنتے کے ساتھ مینوفیکچرنگ اور مینٹنینس کے شعبوں میں شراکت داری کیلئے6 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ ہیلی کاپٹر، آبدوزوں اور بحری جہاز کی تیاری میں تعاون فراہم کیا جائے گا۔ بھاررت اور روس کے درمیان دوطرفہ بات چیت 2000 ء کے بعد سے ہر سال ہو رہی ہے ۔

بھارت اور روس سرد جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی تھے لیکن حالیہ برسوں میں یہ تعلقات ذرا پیچیدہ نوعیت کے ہو گے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین دس ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی ہے۔ وہیں روس بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ بہرکیف دونوں ممالک کے دفاعی اور اسٹرٹیجک تعلقات کافی اہم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ بھارت کی تین مسلح افواج کی سپلائی کا سات فیصد روس سے حاصل ہوتا ہے۔

بھارت کے پاس موجود ٹینک ،جنگی طیارے، آبدوزیں اور دیگر جتنا بھی تباہی پھیلانے والا فوجی سازوسامان ہے وہ روس سے ہی خریدا گیا ہے۔ روس کے لیے بھارت اس لئے بہت اہم ہے کیونکہ بھارت ہتھیار درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت جو پہلے ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے خطرناک بن چکا ہے اس پر روس اور امریکہ کی مزید نوازشوں اور مہربانیوں نے جنوبی ایشیا کے امن کو بھی داوٴ پر لگادیا ہے ۔

بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کا انبار اور مزید خفیہ جوہری منصوبے کی تعمیر اس کی پاکستان دشمنی کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ ہر صورت میں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اسے ترنوالہ سمجھتے ہوئے نگل جائے جس طرح وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ”سکم“ کو نگل چکا ہے۔اور نیپال میں عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے ۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی دہشت گردی کا جال پھیلا رکھا تھا حتی کہ بنگلہ دیش اور بھوٹان بھی اس کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں۔

خطے میں اپنی فوجی قوت کی دھاک بٹھانے کیلئے اگر ایک جانب اربوں کھربوں ڈالر کے خطرناک جوہری منصوبے بنائے جار ہے ہیں تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہاہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا دورہ روس بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے جبکہ نریندرمودی لاہور کا دورہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مترادف ہے کہ ایک طرف خفیہ طور پر ایٹمی منصوبے بنائے جا رہے ہیں ،جوہری پلانٹس لگائے جا رہے ہیں۔جدید ترین خطرناک اسلحہ کے انبار لگائے جا رہے ہیں تو اس دوران پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بات کرنا بھارتی عیاری ومکاری کے سوا کچھ نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Bharat Main Khittay k Sab Se Bare Khuffia is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 January 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.