بھارت کیلئے افغانستان سے فضائی کارگو کی دوسری قسط!

کابل سے ممبئی کیلئے بھی پرواز شروع․․․․․․․․․․ افغانستان نے اپنا سامان بیرونی دنیا سے بذریعہ پاکستان منگوانے پر انحصار کم کردیا

منگل 9 جنوری 2018

bharat ke liye afghanistan sy fizzai cargo ke Dosri Kist
محمد رضوان خان:
افغانستان کو سمندر کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے لینڈ لاک ریاست کا درجہ حاصل ہے اس سٹیٹس کے باعث پاکستان 60 کی دہائی ہی سے افغانستان کے تجارتی سامان کی راہداری کی سہولت دے رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ، اس راہداری کیلئے باقاعدہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام سے ایک معاہدہ موجود ہے ۔

اس معاہدے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری یعنی”ٹرانزٹ ٹریڈ ایگزیمنٹ“ کا معاہدہ 2010ء میں طے پایا تھا جس کے تحت افغانستان کے سامان سے لدے ٹرکوں کو طے شدہ مخصوص راستے کے ذریعے لاہور کے قریب واہگہ سرحد تک اور کراچی میں ساحل سمندر تک جانے کی اجازت دی گئی تھی جہاں سے یہ سامان ہندوستان بھیجا جاسکتا تھا جبکہ اس معاہدے کے تحت پاکستانی ٹرکوں کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک تک رسائی دینے کا فیصلے کیا گیا تھا لیکن مختلف انتظامی وجوہات کی بناء پر اس معاہدے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

یہ معاہدہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے سامنے کروایا تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے امریکی براہ راست یہ معاہدہ کروارہے تھے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان حکومت پر زور دیا گیا کہ افغانستان کے سامان کو بھارت تک جانے کی اجازت دی جائے اور اسی طرح بھارت کا سامان بند کا بند پاکستان کی حدود سے گزر کر افغانستان جائے۔ امریکہ کی اس معاہدے میں دلچسپی یہ تھی کہ اسی معاہدے کے تحت وہ بھی نیٹوفوج کا سامان افغانستان بھیجا کرتا تھا۔

اس معاہدے کو چونکہ امریکہ نے دباؤ ڈال کر طے تو کروالیا لیکن اس کے بعد وہ معاہدے کو پاکستان سے منوا نہیں سکا۔ بھارت نے بذریعہ افغانستا اور امریکہ بہت کوشش کی کہ اس کے سامان کو افغانستان تک کی راہداری مل جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف یہ چال چلی کہ اس نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے کے تحت پاکستان آنے والے سامان کودیگر روٹس پر شفٹ کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی شروع کی کہ ایسے میں پاکستان اور چین نے اپنے تزویراتی تعلقات کا آغاز سی پیک سے کردیا۔

پاکستان اور چین کی اس نئی سانجھے داری نے نئی دہلی میں صف ماتم بچھا دی جس کے بعد ہندوستان نے بھرپور کوشش کی کہ اس پراجیکٹ کو روکا جائے حتیٰ کے چین کو بھی ورغلانے کی بھرپور کووشش کی گئی لیکن جب کوئی بات نہ بنی تو پھر بنیادی طور پر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان کا پاکستان پر انحصار کم سے کم کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے بھارت نے ایران سے گٹھ جوڑ کیا اور پہلے مرحلے میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی اپ گریڈایشن شروع کی گئی ، اس اب گریڈیشن میں تاثر دیا گیا کہ جیسے یہ سی پیک کا متبادل تیار کیا جارہا ہے لیکن دورانہ خانہ چاہ بہار کی اپ گریڈیشن کا ہدف پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں پاکستان کے حصے کو ختم کرنا تھا۔

بھارت اپنی اس سازش میں بڑی حد تک کامیاب ہوگیا ہے کیونکہ افغانستان نے اپنا سامان بیروبی دنیا سے بذریعہ پاکستان منگوانے پر انحصار کم کردیا ہے جس کا اندازہ اعدادوشمار کے علاوہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے ان تاجروں سے مل کر کیا جاسکتا ہے جو اس ٹریڈ سے براہ راست یا اپنی خدمات دینے کے اعتبار سے وابستہ تھے، اس ضمن میں پاک افغان جائنٹ چیمبر کے عہدیدار اور معروف تاجر ضیاء الحق سرحدی کہتے ہیں کہ ”پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو پچھلے چند برس میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اب زیادہ ترسامان افغانستان براستہ ایران منگوارہا ہے“ ان تاجروں میں بڑی مایوسی پائی جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ پہلے اگر ایک دن میں وہ پچاس ٹرک کلیئر کرایا کرتے تھے تو اب ایک دن میں تین یا چار ٹرک کی کلیئرنس ہوتی ہے ۔

بھارت یہی چاہتا تھا اور اپنے اس ہدف کو وہ مرحلہ وار طور پر بڑھا رہاہے اس نے جون میں افغانستان کو پاکستان دشمنی میں مہنگی فضائی راہداری فراہم کی۔ اس سلسلے میں جو پہلا فضائی کارگو طیارہ چلایا گیا وہ جان بوجھ کر کابل سے نئی دہلی گیا جس میں افغانستان سے لگ بھگ60 ٹن تجارتی سامان نئی دہلی پہنچا اور یوں ہندوستان اور افغانستان کے درمیان ائیر کارگوسرو س کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

اس فضائی سروس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ مال برادر ہوائی جہاز کے ذریعے خشکی سے گھرے افغانستان کو بھارت کہ راستے اہم عالمی تجارتی منڈیوں تک رسائی فراہم کی جائے۔ افغانستان اس سے پہلے بلکہ اب تک بھی اپنی غیر ملکی تجارت کیلئے پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ پر انحصار کرتا رہا ہے لیکن اب اس میں کمی آرہی ہے کیونکہ بھارت نے پہلے فضائی کارگو سروس کابل اور نئی دہلی کے درمیان چلائی اور پھر ستمبر میں چاہ بہار کی بندرگاہ کے راستے اپنی گندم افغانستان کو بھیج دی، یاد رہے کہ ہندوستان کی یہ پھرتیاں اس وجہ سے بھی دو آتشہ ہوجاتی ہیں کہ پاکستان نے افغانستان کو زمینی راستے سے محدود تعداد میں تجارتی سامان بھارت بھیجنے کی اجازت تو دے رکھی تھی ،تاہم اسی راستے سے افغانستان کو ہندوستان سے درآمدات کی اجازت نہیں تھی۔

پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب سبربراہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک افغانستان کو تجارتی راہداری کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے کا خواہاں ہے لیکن ان کے بقول بھارتی سامان تجارت کی پاکستان کے راستے افغانستان منتقلی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، چند روز قبل میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ پاکستان ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی وکاروباری اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن کابل اس بارے میں گریزاں ہے۔

سرتاج عزیز نے کہاکہ پاکستان ، افغانستان کے ساتھ تجارتی امور پر سیاسی اختلافات اور اعتماد کے فقدان کو ایک طرف رکھنے پر بھی آمادہ ہے کیونکہ یہ افغانستان کے لئے اہم معاملہ ہے لیکن پاکستان کے زمینی راستے سے بھارت سے افغانستان کے لیے تجارت کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس محرومی کی وجہ سے ہندوستان نے پہلے کابل سے نئی دہلی کے درمیان فضائی کارگوسروس چلائی۔

پہلی پرواز میں افغانستان سے لگ بھگ 60 ٹن تجارتی سامان نئی دہلی گیا تھا ، اس پرواز سے قبل بھارت نے 100ٹن تجارتی سامان کابل بھیجا تھا ، یوں اس پہلی پرواز میں بھی اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے سو کے مقابلے میں افغانستان نے 60 ٹن سامان بھیجا جس میں بھارت کا پلڑا بھاری رہا، ان اعدادوشمار سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت اس راہداری کے ذریعے اپنے مال کو ارزں نرخوں پر افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچانے کیلئے بے تاب ہے۔

افغانستان کو ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اس سے اپنے مفادات کے تحت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے چاہئیں حالانکہ متعدد بار افغان حکمران یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے مفادات پر کبھی بھارت کے مفادا کو ترجیح نہیں دے گے لیکن وہ اس کے برعکس کررہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانستان ان حالات کو اپنے اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی روشنی میں دیکھتا لیکن اس اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ بھارت کا مفاد پاکستان سے زیادہ عزیز ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 2.7 ارب ڈالر سالانہ سے کم ہو کر 1.5 ارب ڈالر تک گرگیا ہے ۔

بھارت کی جانب سے اس بارے میں مزید کوشش شروع کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں تازہ ترین کاروائی یہ کی گئی ہے کہ بھارت نے اب فضائی کارگو کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے ہفتہ رفتہ کے دوران اب کابل سے ممبئی کی براہ راست سروع بھی شروع کردی گئی ہے جوان دونوں ممالک کے درمیان دوسرا فضائی روٹ ہے۔ اس سے قبل کابل اور نئی دہلی کے درمیان ہوئی جہاز کے ذریعے مال برداری شروع کی گئی ہے ، اس سال کو زیادہ زور دار بنانے کیلئے بھارت نے افغان تاجروں سے ٹیکس بھی نہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔

ٹیکس میں یہ چھوٹ اس لئے دی گئی تاکہ افغان تاجروں کو بھارت کے ساتھ تجارت کی طرف راب کیا جائے ، ٹیکس کی یہ چھوٹ کب تلک چلتی ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن غالب امکان یہ ہے کہ بھارت اس عمل کو زیادہ تیزی سے بڑھائے گا کیونکہ ایک طرف تووہ پاکستان کے ہاتھ سے افغانستان کی تجارت کو نکالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ افغانستان کی مارکیٹ کو قابو میں کرنا چاہتا ہے، اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ 6 ماہ قبل کابل اور نئی دہلی کے درمیان شروع ہونے والی مال بردار فضائی رابطہ سروس کے بعد سے اب شروع ہونے کے بعد افغانستان سے تقریباََ 2 کروڑ ڈالر مالیت کے پھل ، خشک میوہ جات اور ادویہ میں استعمال ہونے والے قدرتی اجزا برآمد کئے جاچکے ہیں۔

بھارتی سرکار کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کی تجارت کو زیادہ سے زیادہ متاثر کیا جائے ۔ بھلے اس میں بھارت کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑرہا ہو۔ بھارت کی اس پاکستان دشمنی پر مبنی پالیسی کے سبب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو حجم 40 فیصد تک کم ہو ا ہے۔ بھارت پاکستان مخالفت میں افغان تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچا رہا ہے جس کے جواب میں افغانستان بھی تاپی گیس پائپ لائن پراجیکٹ میں سرعت لارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ پائپ لائن بھی جلد اپنی اگلی منازل طے کرکے ہندوستان پہنچ جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

bharat ke liye afghanistan sy fizzai cargo ke Dosri Kist is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 January 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.