برمی مسلمانوں پر جبر مسلسل

امت خیرالبشرآج اپنی تاریخ کی انتہائی پسپائی اور رسوائی سے دو چار ہے۔ جس کی اصل وجہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے روگردانی، غیر اللہ سے امید و توقع اور قرآن و سنت سے دوری ہے۔ مسلم دنیا نسلی علاقائی اور مسلکی تفریق کا شکار ہیں جس کے باعث تذلیل و تضحیک کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

بدھ 1 نومبر 2017

Barmi Musalmano Par Jaabar Musalsal
 عزیز ظفر آزاد:
امت خیرالبشرآج اپنی تاریخ کی انتہائی پسپائی اور رسوائی سے دو چار ہے۔ جس کی اصل وجہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے روگردانی، غیر اللہ سے امید و توقع اور قرآن و سنت سے دوری ہے۔ مسلم دنیا نسلی علاقائی اور مسلکی تفریق کا شکار ہیں جس کے باعث تذلیل و تضحیک کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ہمارے پاس معدنی وسائل کی کمی ہے نہ باصلاحیت افراد کا قحط اگر 57 مسلم ممالک باہم اخوت و یکجہتی کا مظاہرہ کریں تو کسی محاذ پر شکست و ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔جہاں چالیس سال سے تیس لاکھ افغان مہاجر پل رہے ہیں وہاں چند لاکھ روہنگیا بھی مختلف مسلم ممالک میں بس سکتے ہیں اگر اجتماعی طور پر صرف مسلم ممالک برما سے صرف تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ صادر کر دیں تو برمی حکومت کے گھٹنے ٹک جائیں گے۔

(جاری ہے)

روہنگی مسلم دنیا کی مدد کے انتظار میں بے قرار ہیں۔دوسری جانب مسلم ممالک کے عوام بھی اپنے مسلم بھائیوں کے حق میں سراپا احتجاج نظر آتے ہیں مگر حکمران مصلحتوں کا شکار ہیں اگر عالم اسلام کو حقیقی قیادت میسر آسکتی تو بر ما کی مجال کیا ؟ بوسنیا، چیچنیا، کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمان آج آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے مقام حیرت ہے کہ عالمگیریت کے اس دور میں کرہ ارض پر ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں بسنے والوں کو بنیادی انسانی حقوق میسر نہیں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق برما کے علاقہ راکھائن کی مسلم آبادی دنیا کی سب سے زیادہ ستم زدہ اور مظلوم افراد پر مشتمل ہے۔

تقریباً گیارہ لاکھ کے قریب مسلمان بارہویں صدی سے آباد ہیں ان روہنگیوں کا کہنا ہے کہ صدیوں قبل برما آنے والے عرب تاجروں کی آل اولاد ہیں۔ ان کا لب و لہجہ اور رہن سہن بدھوں سے مختلف ہے۔1948ءمیں جب انگریز برصغیر سے گئے تب ہی سے انہیں برمی شہریت سے محروم رکھا۔ کرہ ارض پر یہ واحد لوگ ہیں جنہیں کوئی ملک شہری ماننے کو تیار نہیں۔ ستم بالائے ستم برما حکومت انہیں غیر ملکی شہری ٹھہرا کر عجیب و غریب ظلم اور نارواپابندیاں عائد کرتی ہے۔

ان لوگوں کو نقل و حمل اور سفر کی اجازت نہیں۔ اس کے لئے باقاعدہ سرکار سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ مذہبی آزادی ہے نہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر علاج معالجہ کی سہولت سے محروم ، نہ انہیں ووٹ کا حق حاصل ہے حد تو یہ ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتے ہیں نہ ہی بچے پیدا کرنے کا اختیار ہے۔یہ بدنصیب لوگ کسی سرکاری عہدے کے اہل نہیں طب اور قانون کے پیشے اختیار کرنے پر پابندی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کی داستان آج کی کہانی نہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط سلسلہ داستان ہے۔ 1559ءمذہبی عناد کی بنا پر جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد ہوئی۔ اس دوران عید الاضحی پر کوئی مسلمان فریضہ قربانی ادا نہیں کر سکتا تھا پھر 1752ءمیں اس پابندی کو مزید سخت کردیا گیا۔ 1782ءمیں برما کے بادشاہ بودھا پایہ نے ایک شاہی تقریب کے ذریعے مسلمان علماءکو ایک جگہ جمع کرکے سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا۔

علما ءکے انکار پر تمام کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ایک حکایت کے مطابق اس واقعہ کے بعد سات روز تک برما کی سرزمین پر سورج طلوع نہیں ہوا جس پر بادشاہ نے اپنے گناہوں کی معافی کے لئے کئی حربے اپنائے 1938ءمیں برمی بدھ برطانوی حکومت کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے مسلمانوں کو بطور ڈھال اپنے آگے قطار در قطار کھڑا کرتے برطانوی راج ختم ہونے کے بعد پہلا مسلم کش آپریشن 1962ءمیں ہوا جب برمی فوج نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر قتل عام شروع کر دیا جو وقفے وقفے سے 1982تک جاری رہا جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔

اسی دوران لاکھوں کے لگ بھگ برمی مسلمان بھارت ، بنگلہ دیش او رپاکستان کی جانب ہجرت کرگئے مگر بدھوں کی درندگی میں کمی نہ آئی 16مارچ 1997ءکو دن دیہاڑے راکھائن صوبہ کے شہر منڈالے میں داخل ہو کر بدھ بھگشوو¿ں نے خون کی ہولی کھیلنا شروع کی دکانوں اور مال و اسباب کو لوٹا، عورتوں کی بے حرمتی اور زندہ بچوں کو آگ میں پھینکا گیا۔پھر 2001میں 15مئی سے 12جولائی کے دوران متعدد حملے کئے گئے۔

ایک مرتبہ مسجد میں عبادت کرتے تمام لوگوں کو شہید کر دیا گیا دوسرے واقعہ میں 11مساجد کو نذرآتش، 400 سے زائد گھر جلا دیے گئے جبکہ دوہزار سے زائد روہنگیاں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا عجب بات ہے دنیا میں جب بھی مسلمانوں کے ظلم کا ذکر ہوا تو برمی مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔ بدھ بھگتوں کی جانب سے ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ حکومت برما میں موجود تمام مساجد کو مسمار کیا جائے۔

2010ءمیں جب فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد روہنگیا مسلمانوں نے بنیادی شہری حقوق کا جمہوری حکومت سے مطالبہ کیا مگر امن کی نوبل پرائز یافتہ برمی قیادت نے انہیں حقوق سے محروم ہی رکھا۔ مذہبی عنادو فساد کا سلسلہ جمہوری دور میں بھی جاری رہا۔ مئی 2012ءمیں ایک لڑکی نے اسلام قبول کیا جسے گھر سے نکال دیا۔ چند روز بعد اس لڑکی کی لاش ملی جو بے حرمتی کا شکار تھی اسے بہانہ بنا کر تین نوجوان مسلمانوں کو قتل کر دیا جس سے پورا علاقہ فساد کی نذر ہوا پھر 3جون 2012ءکو زائرین عمرہ کی ایک بس کو روک کر دس علماءکو قتل کرکے بس کو نذر آتش کیا۔

مسلم آبادیوں پر دھاوا بول دیا۔ دنیابھر نے احتجاج کیا مگر نتیجہ صفر رہا۔ اسی سال او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کی غرض سے دفتر کھولنے کا اظہار کیا تو برمی حکومت نے انکار کر دیا۔2012 میں ہی عید الاضحی کے روز ذبح پر فساد برپا ہونے کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان شہید کئے گئے۔ اس کے بعد ایک قافلہ ہجرت کرکے بنگلہ دیش کی جانب گیا جہاں انہیں گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

علاوہ ازیں انڈونیشیائ، ملائیشیائ، تھائی لینڈ، سنگاپور، سری لنکا، بھارت سمیت تمام ملکوں کی بندرگاہوں پر پہنچ کر امن اور تحفظ کی بھیک مانگی گئی مگر بے سود رہی۔ 2013ءمیں بھی ان داستانوں کو دہرایا گیا مگر 2017ءکے مظالم انسانی حقوق کے علمبردار اداروں اور عالمگیریت کے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ دوسری جانب گوتم بدھ کے افکار و تعلیمات کے پرخچے اڑائے گئے مگر کوئی بدھ بھگتوں کو لگام دینے والا ہے نہ مظلوموں کو کوئی امان دینے والا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Barmi Musalmano Par Jaabar Musalsal is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 November 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.