امریکی ایوان نمائندگان کی روس پر نئی پابندیوں کی حمایت

روسی صدر کا امریکی سفارتی عملے کے 755 ارکان کو ملک چھوڑنے کا حکم، روس اور امریکہ کے تعلقات میں عنقریب بہتری کے آثار نہیں‘پیوٹن

ہفتہ 19 اگست 2017

Amriki Aiwan e Numaindgan Ki Roos Par Nayi Pabandion Ki Himayat
رمضان اصغر:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتخاب میں مبینہ مداخلت کرنے پرروس کے خلاف پابندیوں کے بل پر دستخط کر کے اس کو قانون کی شکل دے دی ہے۔ اس بل پر صدرنے وائٹ ہاؤس میں دستخط کیے۔ اس نئے قانون کے تحت ایران اور شمالی کوریا پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ صدر نے کانگریس پر اس بل کو منظور کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ٹرمپ کے دستخط کیے جانے کے بعد روسی وزیراعظم دیمیتری میود یو نے کہا کہ اس بل کو قانون کی شکل دینے کا مطلب ہے کہ امریکہ نے روس کے خلاف مکمل تجارتی جنگ کا اعلان کردیا ہے اس نے کہا کہ پابندیوں کے باعث نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی امیدیں ختم ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ایران نے ان پابندیوں کے بارے میں کہا ہے کہ نئی پابندیاں ایران نے ان پابندیوں کے بارے میں کہا ہے کہ نئی پابندیاں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور تہران اس کا موزوں جواب دے گا۔

(جاری ہے)

امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنقید کے باوجود روس پر نئی پابندیاں لگانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ روس کی امریکی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور اسی تناظر میں امریکی صدر نے ملک کے اٹارنی جنرل جیف سیشنز پر دباؤ بھی بڑھا دیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت نے ان اقدامات کی حمایت کی جس کے ذریعے شمالی کوریا اور ایران پر بیلیسٹک میزائل کے تجربے کی وجہ سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

ان نئی پابندیوں کی وجہ سے روس کے تیل اور گیس کے پراجیکٹس پر اثر پڑے گا۔ گزشتہ دسمبر میں اس وقت کے صدر براک اوباما نے الیکشن ہیکنگ کے حوالے سے 35 روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا اور دو روسی کمپاؤنڈ بند کردیئے گئے تھے۔ روس امریکی انتخاب میں مداخلت کے الزام کو مسترد کرتا آیا روس نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ قبضے میں لئے گئے دونوں کمپاؤنڈ کو روس کے حوالے کردے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو روس جوابی کاروائی کرے گا۔

گزشتہ دنوں اعلیٰ سطح کی بات چیت کے بعد ایک روسی اہلکار نے کہا تھا کہ کمپاؤنڈ کا مسئلہ تقریباََ حل ہوگیا ہے۔ اس نئے بل کے تحت صدر ٹرمپ پابندیوں میں تبدیلی یا سفارتی جائیداد کی واپسی کانگریس کی منظوری کے بغیر نہیں کرسکتے ۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ماسکو پر نئی امریکی پابندیوں کے بعد ملک میں امریکی سفارتی مشنز کے عملے کے 755 ارکان کو لازمی ملک چھوڑنا ہوگا۔

755 ارکان کے نکلنے کے بعد ماسکو میں امریکی عملے کے ارکان کی تعداد 455 ہوجائے گی اور اتنی ہی تعداد میں روسی عملہ اس وقت واشنگٹن میں تعینات ہے۔ موجودہ تاریخ میں کسی ملک سے ایک وقت میں سفارت کاروں کی یہ سب سے بڑی بے دخلی ہے ۔ روسی صدر نے امریکی عملے کی ملک سے بے دخلی کی تصدیق کے ساتھ مصالحتی بیان بھی دیتے ہوئے کہا کہ وہ مزید اقدامات اٹھانا نہیں چاہتے لیکن تعلقات میں عنقریب کسی تبدیلی کو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔

روسی ٹی وی کو صدر پیوٹن نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں۔روسی ٹی وی کو صدر پیوٹن نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کام کر رہے تھے اور 775 لوگوں کو روس میں اپنی لازمی اپنی سرگرمیاں ترک کرنا ہوں گی۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اس کے ساتھ رائے دی کے وہ مزید اقدامات پر غور کرسکتے ہیں تھے لیکن ویہ ان کے خلاف ہیں۔

مزید کہا ہے کہ شام کے جنوبی علاقوں میں خصوصی زونز کا قیام ایک ساتھ کام کرنے کی صورت میں ٹھوس نتائج کی مثال ہے۔ تاہم انھوں نے معمول کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ، ہم نے اس امید کے ساتھ کافی انتظار کیا کہ صورتحال بہتری کی صورت میں تبدیل ہوجائے گی لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اگر صورتحال بدل بھی رہی ہے تو ابھی یہ عنقریب نہیں ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنقید کے باوجود روس پر نئی پابندیاں لگانے کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ گذشتہ دسمبر میں اس وقت کے صدر براک اوباما نے الیکشن میں ہیکنگ کے الزام پر 35 روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑ دینے کا حکم دیاتھا اور دو روسی کمپاؤنڈ بند کردیے گئے تھے۔ امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنقید کے باوجود روس پر نئی پابندیاں لگانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

2016 کے امریکی صدراتی انتخاب میں مبینہ طور پرروس کی مداخلت کی وجہ سے سینئیر حکام اس کے ردعمل میں نشانہ بنیں گے۔ یہ بل شاید امریکی صدر کی روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی امیدوں کو مشکل میں ڈال دے گا۔ امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں کے رہنما صدارتی انتخاب میں روس کی مبینہ مداخلت پر اس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے قانون سازی پر رضامند ہوئے تھے۔

روس کی امریکی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور اسی تناظر میں امریکی صدر نے ملک کے اٹارنی جنرل جیف سیشنز پر دباؤ بھی بڑھا دیا تھا۔ صدر نے اپنے ایک بیان میں جیف کو’ کمزور ‘کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ ان سے مایوس ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو تحقیقات سے بچانے کا فیصلہ کیا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت نے ان اقدامات کی حمایت کی ہے جس کے ذریعے شمالی کوریا اور ایران بیلیسٹک میزائل کے تجربے کی وجہ سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

روس امریکی انتخاب میں مداخلت کے الزام کو مسترد کرتا آیا ہے۔ روس نے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ قبضے میں لئے گئے دونوں کمپاؤنڈ کو روس کے حوالے کرے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو روس جوابی کاروائی کرے گا اعلیٰ سطح کی بات چیت کے بعد ایک روسی اہلکار نے کہا تھا کہ کمپاؤنڈ کا مسئلہ تقریباََ حل ہوگیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان جرمنی میں ہونے والے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے موقع پر دوبار خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔

دونوں صدور کے درمیان باضابطہ ملاقات کے بعد یہ غیر رسمی ملاقات ہوئی تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں کہ آیا انھوں نے اس دوران کیا بات چیت کی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن کے درمیان تعلقات امریکی صدارتی انتخاب کے دوران مبینہ روسی مداخلت کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں کو لگتا ہے کہ روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی گذشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخاب میں مدد کرچکے ہیں۔

جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر دونوں اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان رسمی ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی جس میں دیگر مسائل کے علاوہ امریکی انتخابات میں روس کی مبینہ دخل اندازی کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ جبکہ دوسری ملاقات ہیمبرگ میں جی 20 اجلاس دوران نجی کھانے پر ہوئی۔ اس موقع پر امریکی صدر تنہا تھے جبکہ صدر پیوٹن کے ہمراہ ان کے سرکاری مترجم تھے۔

امریکی میڈیا کے مطابق یہ ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات میں زیر بحث چیزوں کے بارے میں وائٹ ہاؤس کو خود صدر ٹرمپ نے ہی آگاہ کیا کیونکہ اس موقع پر وہاں کوئی دوسرا امریکی اہلکار موجود نہیں تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ نے اصرار کیا ہے کہ ان کے پاس لوگوں کو معاف کرنے کی مکمل طاقت موجود ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صدرروس سے تعلقات کے معاملے پر اپنے خاندان کے افراد، بشمول خود کو معاف کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

روس اور صدر ٹرمپ دونوں نے ان تعلقات کی تردید کی۔ واشنگٹن پوسٹ نے خبردی تھی کہ ٹرمپ اور ان کی ٹیم صدر کے قریبی ساتھیوں کو معافی دینے کے طریقوں پر غور کررہے ہیں۔ امریکی صدر کے پاس لوگوں کو معاف کرنے کی طاقت موجود ہوتی ہے ، چاہے ابھی ان پر جرم ثابت نہ ہوا ہویا لزام تک نہ لگایاہو۔ تاہم ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مارک وارنر نے ان رپورٹوں کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کو معاف کر دینا ایک بنیادی لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے۔

صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کی تھی سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ صدر کے پاس معاف کرنے کی مکمل طاقت موجود ہے۔ لیکن ایسا کیوں سوچیں جب کہ اب تک کیا جانے والا جرم صرف ہمارے خلاف انکشافات ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ان انکشافات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جن میں کہا گیا تھا کہ ان کے اٹارنی جنرل چیف سیشنز نے امریکہ میں روسی سفیر گے کسلیا ک سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اخبار نے یہ خبر حالیہ اور سابقہ حکام کے حوالے سے دی تھی۔

ان میں سے ایک عہدے دار کے مطابق کسلیا ک نے سیشنز سے اہم انتخابی معاملات کے بارے میں بات کی تھی،جن میں ٹرمپ کی روس کے بارے میں پالیسیوں پربات چیت بھی شامل تھی۔ سیشنز نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کا ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران روس سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بعد میں جب اس کا انکشاف ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ ان ملاقاتوں کے دوران انتخابی معاملات زیر بحث نہیں آئے تھے۔

صدر ٹرمپ نے ہفتے کو کئی ٹویٹس میں واشنگٹن پوسٹ کی خبر کو ہدف بنایا۔ واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے ایک نیا انکشاف ۔ اس بار اٹارنی جنرل جیف سیشنز کے خلاف ۔ یہ غیر قانونی انکشافات اب بند ہوجانے چاہیئں۔امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ذاتی طور پر وہ بیان لکھوایا تھا جو ان کے بیٹے نے روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں دیا تھا۔

بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر روسی وکیل نے جون 2016 میں زیادہ تر روسی بچوں کو گود میں لینے کے بارے میں بات چیت کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے بعد میں انکشاف کیا کہ وہ روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کے لئے اس وقت راضی ہوئے جب انھیں بتایا گیا کہ ان سے ہیلری کلنٹن کو نقصان پہنچانے والا مواد حاصل کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مبینہ مداخلت کے الزامات کو مستردکرتے آئے ہیں۔

امریکی سینیٹ ، ایوان نمائند گان اور ایک خاص کونسل امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم میں مبینہ روسی مداخلت کی تفتیش کر رہے ہیں جس کی کریملن تردید کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کا بیان آنے کے بعد وائٹ ہاؤس میں مزید افرا تفری دیکھنے میں آئی اور وائٹ ہاؤس کے افسرِ رابطہ اینتھی سکاراموچی کو اپنے عہدے پر تعینات ہونے کے صرف دس دن کے اندر اندر برطرف کردیا گیا ہے۔

سکارموچی وال سٹریٹ کے سابق ماہر مالیات ہیں۔ انھیں اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جب انھوں نے ایک رپورٹر سے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے رفقائے کار کے بارے میں گالیوں بھری زبان استعمال کی۔ میڈیا کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی طور پر وہ بیان لکھوادیا تھا جو ان کے بیٹے نے روسی وکیل کے ساتھ ملاقات کے بارے میں دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف آف سٹاف رائنس پر بیس اور ترجمان شان سپائسر دونوں نے سکارا موچی کی تعیناتی کے بعد اپنے عہدے چھوڑ دیے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے۔ کہ صدر ٹرمپ بھی اسکارموچی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ ٹرمپ کی ترجمان سارا سینڈرز نے کہا کہ صدر کے خیال میں سکاراموچی نے رپورٹر کے ساتھ ، جوزبان استعمال کی وہ اس عہدے پر کام کرنے والء کسی شخص کے شایانِ شان نہیں تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر ، ان کے بہنوئی جیرڈکشنر اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سربراہ پال مینفرٹ نے روسی وکیل نٹالیا ویسلنتیکایا سے نیویارک میں واقع ٹرمپ ٹاور میں 2016 میں ملاقات کی تھی۔

ٹرمپ جونیئر کو برطانوی پبلسٹ راب گولڈ سٹون کی جانب سے ایک ای میل آئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا ہ بعض ایسے روسی دستاویزات ہیں جو کہ ہیلری کلنٹن کو مجرم ثابت کر دیں گے۔ لیکن ٹرمپ جونیئر کا کہنا ہے کہ اس خاتون نے انھیں کام کی کوئی چیز نہیں دی اور یہ کہ میٹنگ صرف 20 منٹ جاری رہی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے بیٹے کی حمایت میں ایک مختصر بیان جاری کیا جس میں انھیں ، اعلیٰ صلاحیت کا شخص قرار دیااور ان کی شفافیت کی تعریف کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amriki Aiwan e Numaindgan Ki Roos Par Nayi Pabandion Ki Himayat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.