امریکہ کو وہی خدشات لاحق ہیں جو سوویت یونین کوتھے

افغان جنگ کے فریق فتح کی خوشی کی بجائے پیاروں کے کھوجانے کے غم بانٹ رہے ہیں ۔۔۔ افغان بنیاد پرستی گھمبیر اور عذاب ثابت ہوگی 29سال قبل کی گئی پیشگوئی درست ثابت ہوئی

منگل 21 مارچ 2017

America KO Wohi Khadshat Lahaq
امتیاز الحق :
افغان معاملات کے ایک باہرپانسن نے1988 ء میں لکھا تھا ” سوویت افواج کے انخلاء اور کابل میں مجاہدین کی بنیاد پرست اسلامی حکومت قائم ہونے کے منفی اثرات مخالفین (مجاہدین ) پاکستان اور امریکہ کیلئے اور قدر گھمبیر ثابت ہوسکتے ہیں کہ ان کی گونج افغانستان میں سوویت یونین کی سیاسی گونج سے زیادہ بلند ہوسکتی ہے ’ کتان کانام ڈائر آؤٹ لک مڈل ایسٹ انٹرنیشنل اپریل 1988 ء ہے اس کے صفحہ نمبر 12پر لکھتا ہے کہ یہ صورتحال مجاہدین کی حمایت کرنے والوں کیلئے ایک عذاب کی شکل اختیار کر سکتی ہے ۔


تقریباََ ایسے ہی خیالات کا اظہار خدشات کی صورت میں مشہورلکھاری ڈیزنچرنے بھی کیا تھا وہ سوال اٹھاتا ہے ” کیا امریکہ حقیقت میں افغان حکومت کی سرکوبی اور مجاہدین کی حکومت کیلئے تیار ہے ؟ امریکیوں کو بھی وہی خدشات لاحق ہیں جن کے پیش نظر سوویت یونین افغانستان میں مداخلت کی تھی ۔

(جاری ہے)

حکومت مخالف قوتوں (طالبان وغیرہ ) کی کامیابی کا مطلب طاقتور بنیاد پرست گروہوں کی کامیابی ہوگا یہ گروہ سوویت یونین اور امریکہ کیخلاف ایک جیسے نفرت انگیز جذبات رکھتے ہیں ۔


قسمتی سے یہ تمام باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں ۔ ان حقائق کے پیش نظر تمام تر توجہ افغان مسئلہ کے سیاسی حل پر مرکوز کرنے اور افغانستان میں استحکام دیکھنے کی خواہش مند اقوام کو افغانستان میں متحارب گروہوں کیساتھ سرجوڑ کرمل بیٹھنے اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغان مسئلہ کے حل میں اقوام متحدہ کے کردار کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔


افغانستان میں استحکام دیکھنے کی خواہش مد اقوام کا اولین فرض ہے کہ وہ افغان عوام کو صحیح معنوں میں آزاد ماحول میں اپنے مستقبل کی سمت کاتعین کرنے کا موقع فراہم کریں ۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں تخریب کاری کرنے والی انتہا پسند قوتوں کی حمایت افغانستان کے غیور عوام کیلئے کسی بھی صورت سود مند نہیں ہے بصورت دیگر بشمول افغانستان اس علاقہ کاامن تباہ برباد اور یہاں مقیم تمام اقوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہوسکتی ہے ۔

پاکستان ” روس “ چین وسط ایشیائی ریاستوں کا افغان صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایک متفقہ لائحہ عمل پر یکجا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ سوویت یونین کے پرچم تلے ایک متحدہ حکومت کے خاتمے اور آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے قیام علاوہ ازیں دیگر علاقائی تنظیموں شنگھائی تعاون تنظیم حالیہ دس ممالک پر مشتمل اقتصادی تعاون کی تنظیم (ای سی اویاایکو ) کے قیام کا ہرگزمطلب نہیں کہ مشترکہ ترجیحات کوپس پست ڈال دیاجائے ۔

آج کے حالات میں علاقائی حکومتوں اور خطہ کی ریاستوں کے نزدیک یہ ترجیحات ہمیشہ زندہ ہیں اور رہیں گی ۔ مشترکہ کہ سیاسی ’ اقتصادی اور دفاعی حکمت عملی کے تعین میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی رہیں گی ۔ حالیہ دس ممالک کی پاکستان میں کانفرنس اور اس میں اختیار کیاجانے والا پروگرام ویژن 2025ء ان ممالک کی علاقائی صورتحال کے تناظر میں ادراک اور پیداشدہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک خوش آئند عمل ہی نہیں ہے بلکہ خطہ کی صورتحال کے باعث مذکور بالا خدشات کا مقابلہ کرنے کیساتھ عوام کی زندگی کو بہتر بنانا ہے ۔

روس چین ، پاکستان سہ فریقی اتحاد ایسے وقت میں تشکیل پایا ہے جس کا ان ممالک کو اپنے ماضی کے تجربے نے سکھایا ہے علاوہ ازیں ابھی ان طاقتوں کو بھی افغان تجربہ سے ” جوزمانے سے نہیں سیکھتا زمانہ اسے سکھادیتا ہے جتنی جلدی ہوا من کی قوتوں کیساتھ شامل ہو کر خطہ ہی نہیں یہاں سے برآمد اور پھیلنے والی عفریت سے ان قوتوں کو بھی سیکھنے کا بہت کچھ موقع مل گیا ہے ۔

افغان جنگ کے دوران مختلف قومتیوں کی نمائندگی کرنیو الے لاتعداد سپاہی اہلکار سول و نیم عسکری ادارون کے اراکین نے اپنے فرائض کی ادائیگی پوری تندہی ایمانداری سے کرتے رہے ہیں ۔ فتح کی خوشی کے خواب کی بجائے ساتھیوں اور پیاروں کے کھوجانے کا غم آپس میں بانٹ رہے ہیں ۔ افغانستان میں تمام قوتوں کومل کر ایسا حل تلاش کرنے کی کوششیں کرنا ہوں گی کہ افغانستان مسئلہ کے طول پکڑ جانے ہماری اقوام کے سروں پر ازسر نو کوئی آفت نہ ٹوٹ پڑے ۔

تمام اقوام کو افغانستان کی اقتصادی حالت بہتر بنانے میں مدد کرنا ہوگی ۔
افغان جنگ تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے جس نے سیاسی ودفاعی سبق سکھائے ہیں جو مستقبل میں عالمی سطح پر اقوام کو پرامن اور خطرات سے محفوظ زندگی گزارنے کا ماحول مہیاکرسکے ۔ موجودہ روس ‘امریکہ علاقائی ریاستیں اور اقوام عالم نے اس جنگ سے بالواسطہ بلاواسطہ تجربہ حاصل کیا ہے ۔

ان تمام کا فرض بنتا ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت اپنے اپنے ملکوں کے عوام کی زندگی کو بہتر بنائیں اور یہ جتنی جلدی قدم اٹھالیا جائے تواچھا ہے وگرنہ تعمیر اور تخریب دونوں کے لوازمات موجود ہی نہیں بلکہ روبہ عمل بھی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ روز بروز تعمیری وتخریبی نہیں بلکہ روبہ عمل بھی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ روز روز تعمیر وتخریبی عمل میں کونسا رخ وزن رکھتا ہے ۔

عوام وبااختیار قوتوں میں ”نیت “ بنیادی عنصر ہے ماضی میں پیش آنے والے واقعات کے پیش نظر مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے آج کا افغانستان گزشتہ 15سالوں کے پرانے افغانستان سے قطعی مختلف ہے ۔ بین الاقوامی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر صورت افغانستان کی سالمیت بر قرار رکھنے اور لسانی بنیادوں پر جاری خانہ جنگی کی آگ بجھانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ عالم کل کی بھلائی اسی میں ہے کہ امریکہ ’ پاکستان ‘ روس ‘ ایران ‘ سعودی عرب اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

America KO Wohi Khadshat Lahaq is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 21 March 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.