امریکی قیادرت،ناقابل اعتبار عالمی پارٹنر

پاکستان ،روس،شمالی کوریا اور ایران پر پابندیاں ،امریکی ناکام سلطنت کی علامت واشنگٹن اپنے ہی عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کررہا ہے

پیر 28 اگست 2017

Amerci Qayadat Na Qabil Aitbaar
امتیاز الحق:
امریکی انتخابات کے خیال کیا جارہا تھا کہ کمزور امریکی صدر ٹرمپ کو ان کی ٹیم کے اہم ارکان چیف آف آرمی سٹاف جان کیلی،سیکرٹری جیمز میٹس،چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف ڈنفورڈ،سیکرٹری آف سٹیٹ، سی آئی اے ڈائریکٹر جن کی مہارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے تجربہ کی بنیاد پر تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے صدر ٹرمپ کی کوتاہیوں سے پیدا شدہ خلا کو پورا کرسکتے ہیں۔

دنیا کو تاحال اس ٹیم کی کارکردگی کا انتظار ہے۔ ۔ تاہم اسکے علاوہ تصویر کا دوسرا رخ شمالی کوریا کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے نتیجہ میں ٹیم کو شرمندگی اٹھانا پڑی لیکن عالمی سطح پر دنیا کے دیگر ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور احساس پیدا ہوا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ذہانت پر مبنی حقیقی قیادت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

شمالی کوریا کو مستقل دباؤ میں رکھنے کے باعث اس ملک کی قیادت بھی خوف میں مبتلا تھی مگر جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش میں کسی حد تک کامیابی نے جذباتی کیفیت پیدا کردی ۔

اسی جذباتی صورتحال میں شمالی کوریا نے ایسے میزائل کا تجربہ کیا جسے اقوام متحدہ کے قوانین کے تناظر میں اپنے دفاعی معاملات کیلئے اجازت درکا نہیں ہوتی۔ اس موقع پر ٹرمپ کا بھڑکیلا ٹویٹ میڈیا کی زینت تو بن گیا لیکن بحرانی کیفیت کے پیدا ہونے پر ٹرمپ کسی طور پر امریکی قائد، رہنما اور کمانڈر انچیف دکھائی نہیں دیئے۔ واضح طور پر ان کے پاس شمالی کوریا کیلئے کوئی پلاننگ یا حکمت عملی دکھائی نہیں دی جو وہ اپنی حکومت کے ذریعے نافذ کرنے کی ہدایت کرتے ۔

اگرچہ معاشی و فوجی دباؤ ڈالنے کیلئے وال سٹریٹ جرنل نے مذکورہ ماہرین وتجربہ کار افراد کی سفارتی حل تلاش کرنے کے بارے میں حکمت عملی کی رپورٹ شائع کی لیکن سفارتی حل کے بارے اقدام کرنے کی بجائے صدر ٹرمپ نے اشتعال انگیزی اور سینہ تان کر نعرہ بازی کردی جس پر ماہرین کی کوششوں پر نہ صرف پانی پھر گیا بلکہ روس اور چین نے دونوں ملکوں یعنی شمالی کوریا اور امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ شعلہ بیانی اور زبانی کلامی جذتی زبان استعمال کرنے سے گریز کریں۔

ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی بے کا بیان بازی سے شمالی کوریا کو زیادہ فرق نہیں پڑا اور چینی قیادت کی بے چینی بھی کسی حد تک کم ہوگئی اور وہ پرسکون ہو کر ایک طرف ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق صدر کی طرف سے بیان بازی سے اجتناب اور پالیسی سازی کیلئے ٹویٹر کی بجائے سیچوایشن روم میں بیٹھ کر حالات کے بارے میں سنجیدہ بیان دیتے علاوہ ازیں امریکہ کے اندر نسل پرستانہ مظاہروں کے خلاف ٹرمپ کی خاموشی نے خوفناک واقعات کے بارے میں ٹرمپ کی کمزوری مزیدآشکار کردی۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ صدر اخلاقی بنیادوں پر نسل پرستی اور سفید فاموں کی بالادستی کے تصور کی مذمت کرتے ہوئے قومی ہم آہنگی اور اتحاد کی بات کرتے بلکہ انہوں نے سفید فاموں کی مذمت نہیں کی جنہوں نے یہ بحران شروع کیا ۔ یہ وہی سفید فام نسل پرست ہیں جنہیں صدر ٹرمپ اپنی سیاسی بنیاد قرار دیتے ہیں اُن کے غیر واضح پیغام نے امریکی قوم میں تقسیم کی لکیر کو مزید گہرا کردیا۔

اس بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس ایک ہفتہ میں ہونے والے دو واقعات میں ناکام ہوگیا ہے، تاہم روس پر پابندیوں کے حوالے سے بھی صدر ٹرمپ اور کانگرس اس بات کو مدنظر نہیں رکھتے کہ روس بھی ایسی ہی پابندیاں لگا سکتا ہے جن میں امریکی خلائی راکٹوں کیلئے روسی انجن کی فراہمی روکی جاسکتی ہے اور صدر ودیگر قیادت کو اندازہ نہیں ہے کہ یورپ میں گھروں کے چولہے روسی گیس اور مغرب میں بجلی کی فراہمی بھی روس سے کی جاتی ہے پابندیوں کی شکل میں محض روس کا اقدام کیا اور کیابحران پیدا کرسکتا ہے۔

عالمی سطح پر سنجیدہ لوگ اس کا اندازہ تو کرسکتے ہیں لیکن امریکی انتظامیہ کو آنے والے حالات کا ادراک نہیں ہے کہ دنیا کی معیشت پر اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ اسی کے ساتھ ایران پر ایسی پابندیوں کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جیسا کہ عراق،لیبیا اور شام کے حوالے سے کیا گیا تھا کہ یہ ممالک جوہری صلاحیت اور خطہ کے ممالک کیلئے خطرہ ہی نہیں بلکہ مغرب کو بھی اپنی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنا لیا تھا۔

2015ء میں امریکہ کی 17 ایجنسیوں نے اپنی اپنی الگ الگ رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایران جوہری صلاحیت حاصل نہیں کررہا جس کی رپورٹ کانگرس کو بھی پیش کردی گئی۔ رپورٹ کے تناظر میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم IAEA کی شمشاہی رپورٹ کے حوالے سے عالمی سطح پر معاہدہ بھی عمل میں لایا گیا اور ایران پر سے پابندیاں ختم کردی گئیں۔ لیکن ایک بار پھر روس، شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ اب پاکستان کو بھی حقانی گروپ کے ساتھ تعاون کے ضمن میں نشانہ بنایا اور پالیسی تیار کی جارہی ہے۔

دانائی سے دور16سالہ افغان جنگ امریکی جیت کا انتظار نہیں کررہی ۔ حالیہ عرصہ میں امریکی قیادت کے اہم ماہرین نے پاکستان کا دورہ کیا اور اپنی اپنی رپورٹ پیش کی۔ ”ندائے ملت“کے گزشتہ کئی شماروں میں ان رپورٹوں پر امریکی سیچوایشن روم میں انہی ماہرین کی باہمی چپقلش جھگڑوں بارے اطلاعات منظر عام پر آگئی ہیں۔ حالیہ پنٹا گون کے بیان کے مطابق پاکستان خطہ میں وہ ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے جس کا تقاضا اس سے کیا جاتا ہے تاہم اختلافی پہلو ایسے نہیں ہیں کہ اس پر دباؤ ڈالا جائے اور معاشی ودفاعی رکاوٹ پیدا کی جائے۔

پاکستان واضح طور پر اس بات کا اعلان کرچکا ہے کہ افغانستان کے مسائل کا حل سیاسی اور مذاکرات کے ذریعے سفارتی کوششوں سے ہی ممکن ہے لیکن مجموعی طور پر امریکی پالیسی ساز خود اندرون امریکہ اور خارجی طور پر عالمی سطح پر ایک ایسی بحرانی کیفیت پیدا کررہے ہیں جس کے بارے میں وہ خود نہیں جانتے کہ اس کے اثرات، مضمرات اور نقصانات کیا ہوں گے لیکن ان کی دو عملی اور ابہام پر مبنی حکمت عملی بالخصوص پاکستان ، روس،چین،شمالی کوریا اور ایران بارے ایسی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے طرز عمل سے ثابت کررہے ہیں ہر بار دھونس اور دھاندلی کی پالیسی کے برعکس مذاکرات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

شمالی کوریا پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر امریکی کاروائی اس کے خلاف جاتی ہے تو اپنے دفاع میں وہ انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ ماضی میں امریکی بحری بیڑے شمالی کردیا کے قریبی سمندر میں کاروائی کیلئے آگے بڑھا تو جوابی طور پر شمالی کوریا ن جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے ڈالی اور بحری بیڑہ نے اپنا رُخ بدل لیا ۔ چین کے جنوبی سمندر میں اپنی آبدوزوں کو بھیجا تو چینی بھی اپنی ایٹمی آبدوزوں کو آگے لے آئے اس پر امریکی پیچھے ہٹ گئے۔

اسی طرح کی بات ایران کی جانب سے کہی گئی کہ اگر ایران کو نشانہ بنایا گیا تو عالمی طاقتوں سے کہا گیا کہ ایران چند گھنٹوں میں ایٹمی معاہدہ ختم کردے گا۔ صدر حسن روحانی نے دھمکی دی کہ اگر امریکہ نے اپنی روش نہ بدلی تو ایران مختصر عرصہ میں مہینوں اور ہفتوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں معاہدہ ختم کرنے پر تیار ہے اور ہم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو کر اپنی پچھلی حالت کی طرف لوٹ جائیں گے۔

حسن روحانی کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ نہ صرف ایران بلکہ امریکی اتحادیوں کے لئے بھی ناقابل بھروسہ ہیں اور وہ اُن کے لئے بھی اچھے ساتھی ثابت نہیں ہوئے ہیں۔حالیہ عرصہ میں دنیا نے دیکھا کہ امریکہ نے ایرانی معاہدے کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر عالمی معاہدے بھی توڑے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ امریکہ نہ اچھا پارٹنر ہے اور نہ ہی بات چیت کے قابل بھروسہ ساتھی ہے۔

سعودی عرب کے دورہ کے دوران امریکی صدر نے قطر کے خلاف ایسی فضا قائم کی کہ ہمسایہ ممالک نے اپنے تعلقات توڑلیے اور فائدہ یہ اٹھایا گیا کہ ایک سو بلین ڈالر کے اسلحہ کا معاہدہ کرلیا ۔ دوسری جانب قطر سے جنگی جہازوں کے سودے کا بھی اقرار کر لیا۔ دوسری پالیسی اور دو عملی نے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ درحقیقت امریکی اشرافیہ بہت چالاکی کے ساتھ ایسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے کہ دنیا کو دیر بعد سمجھ آتی ہے۔

ایران، روس،پاکستان،چین ، شمالی کوریا کوئی بھی ملک ہو اُن کو دباؤ میں لانے کے بعد ان ملکوں کی بڑھتی ترقی ، باہمی تعلقات اور ایشیائی خطہ میں توازن ِ قوت کو اپنے خلاف روکنے کے حربے ہیں لیکن امریکی حالیہ سفید فام نسل پرستوں کے حملے شمالی کوریا کو خوفزدہ کرنا روس پر پابندیاں ، ایران اور پاکستان ، مشرق وسطیٰ میں بحران پیدا کرنا امریکی مایوسی خطرناک اور بے ہودہ انداز میں ملکی وغیر ملکی حکمت عملی و پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ پیچھے اور نیچے کی جانب سفر کررہا ہے۔

اِن ممالک پر پابندیوں کا مقصد اُن کے بنتے بڑھتے تعلقات، رشتے اور مضبوط رابطے منقطع کرنا اور اُن کو اہم کردار ادا کرنے سے روکنا ہے، بالخصوص ایشیا میں اپنے خلاف توازن کو متوازن بنانے کی ناکام کوشش کرنا درحقیقت یہ پالیسی اور پابندیاں ناکام امریکی سلطنت کی علامات ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Amerci Qayadat Na Qabil Aitbaar is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 August 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.