افغانستان میں امریکی اسلحے کی لوٹ مار اور کرپشن

پاکستان نے اپنی مغربی سرحدوں کے اندر نگرانی کے لئے ایک ’گیٹ‘ کی تعمیر شروع کردی جس پر عین وقت پر افغان فورسنز نے پاکستانی سیکورٹی فورسنز پر فائرنگ کرکے بین الااقوامی سرحد وں کا نہ صرف تقدس پامال کیا اس فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے ایک دلیر افسر شہید ہوگئے۔ لیکن شہادت کی آخری سانسوں تک ان کا آخری قیمتی جملہ یہی تھا

پیر 31 اکتوبر 2016

Afghanistan Main Americi Aslahe Ki loot Mar
ناصر رضا کاظمی:
زندہ باش، زندہ نظر، زندہ فکر وفہم اور ہمہ وقت متحرک، عقل و دانش سے آراستہ ارفع و اعلیٰ بابصیرت اور زیرکی دوربیں گہری نگاہ رکھنے والوں کے لئے تاریخ یہ کہتی ہے کہ ان کے ضمیر کے فیصلوں میں خطا اور غلطی کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے۔ ایسی عظیم اور نابغہ شخصیات کا ضمیر کبھی شرمساری اور ندامت سے دوچار نہیں ہوتا چونکہ یہاں براہِ راست ہم کالموں میں’ ’حکمرانوں“ سے مخاطب ہوتے ہیں ۔

چاہے وہ ہمارے حکمران ہوں یا غیر ملکی، خاص کر ایسے غیر ملکی حکمران، جن کے بعض ماضی کے فیصلوں کے نتیجہ میں ہماری قوم اور ہمارے ملک پر ’ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ‘ مضر اثرات مرتب ہوئے ہوں اور جن مضر اور غلط شرمناک فیصلے۔ بلکہ ان حکمرانوں کی ذاتی انّاوٴں کے فیصلوں کا اب تک ہم خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوں اور آج 69 برس گزرنے کے بعد بھی ان ہی غلط اور تاریخی ندامت آمیز فیصلوں کی بنا پر اپنے ہی مغربی پڑوسی مسلم ملک افغانستان سے آنے والی زہریلی اور متعصبانہ خبریں سن کر ہماری تیسری نسل جوانی سے جو بزرگی کی عمر کی طرف بڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

اسے بڑی حیرانی اور بڑا تجسس ہوتا ہے کہ افغانستان جیسا پڑوسی ملک جو ہمارے ملی وثقافتی رگ و پے میں باہم پیوست بھائیوں جیسا ملک ہے۔وہ ہماری دشمنی پر اس قدر آخر کیوں کمر بستہ ہے؟ جبکہ پاکستان کی آج کی یہی نئی نسل دیکھ چکی ہے کہ پاکستان نے اپنے انتہائی محدود وسائل میں رہ کر 30-35 برس تک مصیبت زدہ اور جنگی مشکلات میں مبتلا مسلمان افغان بھائیوں کو پاکستان میں مہمان رکھا ان آوٴ بھگت میں پوری قوم لگ گئی ۔

آج بھی افغانستان جا بسنے والوں کی کثیر تعداد ان کے رشتہ دار پاکستان کے چاروں صوبوں کے شہری علاقوں میں رہتے، کھاتے اور بلا کسی تعطل کے اپناکاروبار کرتے ہیں۔ ضمیر انسان کا ایک قابل ِ اعتماد رہنما ہوتا ہے اگر ضمیر زندہ ہوتا ہے تو وہ انسان کو کبھی ’ناشکرا‘ نہیں ہونے دیتا۔ افغانستان کے بعض اہل الرائے کہتے ہیں کہ ’پاکستان ہمارا محسن پڑوسی مسلمان ملک ہے‘ جبکہ موجودہ افغان اشرافیہ جس پر امریکیوں کے ساتھ اب بھارتیوں کی بھی ’فکری اجارہ داری‘ قائم نظر آتی ہے وہ ’پاکستان‘ کو دنیا بھر میں سبک وکم تر اور سرنگوں کرنے کے لئے سی آئی اے اور ’را‘ کی سکھلائی گئی نفرتوں کی کہانیوں پر زیادہ تیزی سے یقین کرنے میں نجانے کیوں اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔

چند ماہ پیشتر پاکستان نے افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں پر افغان اعلیٰ حکام کے جھوٹے اور بے سروپا الزامات کا ہمیشہ کے لئے منہ بند کرنے کی غرض سے پہلے تو دوطرفہ ’بارڈر مینجمنٹ‘ کی ایک نہایت موثر اور جائز تجویز کابل کے سامنے رکھی ۔جسے کابل نے تسلیم نہیں کیا گھر کا دروازہ بند نہیں کیا جائے گا اور کسی کو روکا نہیں جائے گا تو ایسے کھلے ہوئے گھر کا کیا حال ہو گا؟۔

کابل نے پاکستان کی جائز اور مثبت تجویز رد کر دی تو پاکستان نے اپنی مغربی سرحدوں کے اندر نگرانی کے لئے ایک ’گیٹ‘ کی تعمیر شروع کردی جس پر عین وقت پر افغان فورسنز نے پاکستانی سیکورٹی فورسنز پر فائرنگ کرکے بین الااقوامی سرحد وں کا نہ صرف تقدس پامال کیا اس فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے ایک دلیر افسر شہید ہوگئے۔ لیکن شہادت کی آخری سانسوں تک ان کا آخری قیمتی جملہ یہی تھا کہ ’گیٹ ‘ کی تعمیر ہر صورت جاری رکھی جائے۔

یہ ’گیٹ ‘ ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستانی سرزمین پر قائم کیا گیا اور یہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کی کھنچی ہوئی لکیر نہیں بلکہ غیر منقسم ہند کے انگریز حکمرانوں کے دور میں1919ء میں پاکستانی قبائلی علاقوں کے ملک و سردار اور افغان حکمران امیر غازی احمد اللہ خان کی باہمی رضا مندی سے برطانیہ کے نامزد کردہ اعلیٰ آفسر سر ڈیورنڈ کی سربراہی میں قائم ہوئی۔

جسے تقسیم ہند کے بعد پاکستان نے بھی تسلیم کر لیا تھا اب بھارتی اور امریکی ایما پر ان افغان اشرافیہ کے پوائنٹ آف ویوز میں کوئی وزن نہ ماضی میں تھا اور نہ آج ہم مانتے ہیں۔ وہ چیختے چلاتے رہیں، پاکستان کے اندر بسنے رہنے اور خوب رچ رچ کے قومی دولت پر ڈاکے ڈالنے والے نام نہاد لسانی و صوبائی پرستی کی سیاسی دکان چمکانے والے چند بکاو قسم کے ’را‘ اور سی آئی اے کے مستقل پے رول کے سیاستدان چاہے کسی لبادے میں لپٹے رہیں خود ا پنی قوم کے سامنے ایسے لوگ اب کسی قیمت کے نہیں رہے۔

بالکل عین اسی قسم کے حالات اس جانب یعنی افغانستان میں بھی ملتے ہیں افغانستان کے اندر کی مغرب کے غیر جانبدار میڈیا کی اطلاعات یہ ہیں کہ عقل سے پیدل امریکا اپنی دولت کا ایک کثیر حصہ جانتے بوجھتے افغانستان میں لٹا رہا ہے۔کبھی بدخشاں صوبہ میں افغان طالبان کوئی حملہ کر دیتے ہیں کبھی افغان طالبان کا کوئی اور گردہ ہلمند صوبہ میں چڑھ دوڑتا ہے۔

تازہ ترین اور کسی حد تک حیران کر دینے والی یہ خبریں بھی حال ہی میں سنائی دیں کہ کابل تو ہے ڈالروں کی کرپشن میں لت پت ،مگر اب تو ’این ڈی ایس‘ نیشنل ڈیفنس سیکورٹی سمیت افغان سکیورٹی فورسز کے گروپس کے گروپس امریکی مہلک اسلحہ، گولہ با رود اور امریکی ساختہ فوجی گاڑیاں افغان طالبان کو یا خود دی جا رہی ہیں یا پھر امریکیوں سے بھی ڈالرز لئے جا رہے ہیں۔

اور افغان طالبان کو یہ اسلحہ فروخت کر کے ان سے ڈالر وصول کئے جا رہے ہیں امریکہ کے علاوہ بعض مغربی ممالک کے غیر جانبدار تھنک ٹینکس بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان مہلک جنگی آلات کے لین دین کے سلسلے میں امریکی اثر و نفوذ کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھتا۔ امریکی فوج سے مہلک اسلحہ کی افغان نیشنل آرمی کے حوالگی کے سلسلے میں پائی جانے والی انتہا کی کرپشن اپنے اب عروج پر پہنچی ہوئی ہے پاکستان کو نصیحتیں کرنے کی امریکی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے۔

اسے اپنی ناک کے نیچے افغانستان نیشنل فورسنز اور افغان خفیہ ادارے کی ’را‘ کی ملی بھگت سے ہونے والی کروڑوں ڈالر کی کرپشن دکھائی نہیں دیتی، امریکہ کا اس اہم معاملہ سے صرف نظر کرنا خطہ کے استحکام کو کس قدر نقصان پہنچا سکتا ہے ۔اس پر اسے غور وخوض کرنے کی کیا ضرورت؟ جبکہ پاکستانی فوج اور اعلیٰ خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر جھوٹے، من گھڑت اور بے سروپا الزامات امریکی اور بھارتی عزائم میں ہمیشہ سے سرفہرست رہے امریکی وقت کو غنیمت جانیں۔

حال ہی میں صوبہ بدخشاں اور صوبہ ہلمند کے اعلیٰ حکام کے تازہ ترین تفتیشی اقدامات کو سرد خانے میں ڈالنے کی بجائے ان رپورٹس میں نامزد این ڈی ایس اور افغان نیشنل آرمی کے ملوث ملزمان کو یہ امریکی حکام انصاف کے کٹہرے میں امریکہ کب لا ئیں گے؟ آ پ بھی انتظار کریں اور ہم بھی ہیں منتظر۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Main Americi Aslahe Ki loot Mar is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 October 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.