افغانستان۔۔۔۔امکانات و خدشات !

چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فاٹا میں FC کے مختلف دستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک افواج بڑی حد تک دہشتگردی پر قابو پا چکی ہیں اور شدت پسند عناصر فرار ہو کر افغانستان کے در پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں اور انشاء اللہ معدودِ چند مفرور بھگوڑے عناصر کا بھی پوری طرح سے قلع قمع کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب 26 نومبر کو ” فوکس نیوز ڈاٹ کام “ پر ایک تحریر شائع ہوئی جس کے مطابق طالبان عناصر افغانستان کی طرف واپس دھکیلے جا چکے ہیں

منگل 27 دسمبر 2016

Afghanistan Imkanat o Khadshaat
اصغر علی شاد:
چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فاٹا میں FC کے مختلف دستوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک افواج بڑی حد تک دہشتگردی پر قابو پا چکی ہیں اور شدت پسند عناصر فرار ہو کر افغانستان کے در پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں اور انشاء اللہ معدودِ چند مفرور بھگوڑے عناصر کا بھی پوری طرح سے قلع قمع کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب 26 نومبر کو ” فوکس نیوز ڈاٹ کام “ پر ایک تحریر شائع ہوئی جس کے مطابق طالبان عناصر افغانستان کی طرف واپس دھکیلے جا چکے ہیں اور اب وہ اپنی تمام تر کاوائیاں افغانستان کے اندر سے انجام دے رہے ہیں۔اس معاملے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے افغانستان کے اندر سرگرمِ عمل مختلف شدت پسند گروہوں نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے اند مختلف گروہوں کی اکثریت کا تعلق بظاہر قندوز ،ہلمند اور ارزگان سے ہے اور ان عناصر کی کاروائیاں ظاہری طور پر خاصے عرصے سے افغانستان میں زور پکڑ چکی ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ بظاہر ان میں شدت پیدا ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں حالات میں بہتری کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اس بات کو تقریباً ہر ذی شعور بخوبی جانتا ہے کہ افغانستان کا خطہ لگ بھگ تیس پینتیس بر س سے مختلف نوع کی شدت پسندانہ سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا چلا آ رہا ہے۔ یوں تو اس معاملے کی تاریخ خاصی پرانی ہے مگر 1978 میں جب ” سردار داؤد “ کی موت کے بعد ” نور محمد تراکئی “ نے اقتدار سنبھالا تو یہ منظر نامہ بڑی حد تک بدل کر رہ گیا اور ساری صورتحال خطر ناک حد تک تبدیل ہو کر رہ گئی۔

اس کے تھوڑے عرصے بعد اقتدار کی باگ دوڑ ” حفیظ اللہ امین “ کے ہاتھ میں چلی گئی اور سابقہ سوویت یونین نے معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ بعد ازاں بتدریج ” ببرک کارمل “ اور ” نجیب اللہ “ بالترتیب معاملات چلاتے رہے۔ یہ ساری صورتحال تاریخ کے ایسے ابواب ہیں جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ اسی دوران افغان مجاہدین مختلف گروہوں میں بٹ کر معاملات کو اپنے اپنے انداز میں کنٹرول کرتے رہے جس کے نتیجے میں بالاخر سابقہ سوویت یونین اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔


اسی دوران وقفوں وقفوں سے طالبان کے بہت سے گروہ بر سرِ اقتدار آئے اور بالاخر ” ملا عمر “ کی زیر قیادت طالبان حکومت اقتدار میں آئی جو تقریباً پونے پانچ سال تک بر سرِ اقتدار رہنے کے بعد تاریخ کے دھندلکوں میں کھو گئی۔ اور 9/11 کی شکل میں تاریخ عالم نے ایسا رنگ بدلا جس سے ساری دنیا اچھی طرح آگاہ ہے اور اس معاملے کی لگ بھگ سبھی جزیات سے سب کو آگاہی حاصل ہے۔

انہی انقلاباتِ زمانہ کے ہاتھوں ” حامد کرزئی “ ایک عشرے سے بھی زائد مسند ِ اقتدار پر براجمان رہے اور پھر ان کی جگہ ” اشر ف غنی “ نے لے لی۔ جنھوں نے ابتدائی چند مہینوں میں تو اعتدال کی راہ اپنائی مگر پھر پوری طرح بھارت کے کٹھ پتلی بن کر رہ گئے اور یہ پتلی تماشا تا حال جاری و ساری ہے۔
اسی دوران بھارتی” را “ اور ” این ڈی ایس “ نے پاکستان اور وطن عزیز کے خلاف ہر وہ گھناؤنا حربہ آزمایا جس کا تصور بھی کوئی مہذب معاشرہ نہیں کر سکتا اور بھارتی سازشوں کا یہ سلسلہ ابھی تک پہلے کی طرح سے چل رہا ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ دہلی کے حکمران اپنے روایتی منفی طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے تعمیری روش اپنائیں گے تا کہ دنیا کا یہ خطہ بھی تنازعات کو خیر باد کہہ کہ حقیقی ترقی و خوشحالی کی راہ اپنائے گا خصوصاً دہلی سرکار مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ ترک کر کے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب پہل کریں گے کیونکہ در حقیقت یہی وہ راستہ ہے جو اس سارے خطے کو مسائل کے اصل حل کی جانب لے جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghanistan Imkanat o Khadshaat is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 December 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.