افغان پناہ گزینوں کی الٹی گنتی شروع․․․․!

قبائلی کے بعد بندوبستی علاقوں میں آپریشن کی تیاریاں۔ شہروں میں بسنے والے مہاجرین کا طرززندگی بدل لینے سے کھوج لگانے میں مشکلات کا سامنا

ہفتہ 29 جولائی 2017

Afghan Panah Guzeenon Ki Ultii Ginti Shuru
محمد رضوان خان:
حکومت پاکستان شاید اس سے پہلے کبھی ملک میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو واپس بھینجے میں اس قدر سنجیدہ ہی نہیں ہوئی تھی یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افغان حکام نے ہی پاکستان کو کبھی اس طرف آنے ہی نہیں دیا کہ پاکستان اس بارے میں کوئی بات کرے یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ چا ر دہائیوں سے یہ بن بلائے مہمان پاکستان میں پڑے ہوئے ہیں اور اب تو یہ وبال جان بن چکے ہیں خاص کر اسے پی ایس اور چار سدہ یونیورسٹی کے واقعے کے بعد تو حکام بھی ان کے بھیجنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور یہ دلچسپی خیبر پی کے کے حوالے سے اگر دیکھی جائے تو صوبے کے حکاماس معاملے میں مرکز سے کئی گنا آگے ہیں،جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہفتہ رفتہ کے دوران پشاور سے قریب ترین قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی میں نہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو علاقہ بدر کردیا گیا بلکہ ساتھ ہی جنکے گھر خالی ہوئے تو اس کے گھر بھی زمین بوس کردئیے گئے،مجموعی طور پر خیبر ایجنسی میں دس مکانات مسمار کر دیئے گئے ہیں جن کے مکین رضاکارانہ طور پر واپس چلے گئے،یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ اگر ایک طرف حکومت نے ان غیر قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا عمل سخت کردیا ہے تو دوسری طرف حالات کو بھانپتے ہوئے از خود واپس جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، تاہم حال ہی میں پناہ گزین واپس گئے ان کا تعلق خیبر ایجنسی کے علاقے ملا گوری سے تھا جو وہاں غیر قانونی طور پر مقیم تھے ان لوگوں کو مقامی انتظامیہ نے اچانک نہیں نکالا بلکہ پہلے باقاعدہ مہلت دی اور اس کے خاتمے پر ان کو چلتا کردیا۔

(جاری ہے)

ملا گوری میں 40 سے زیادہ ایسے افغان گھرانے تھے جو غیر قانونی طور پر مقیم تھے،تاہم ان کی مہلت پوری ہوئی تو ان کو واپس بھجوا دیا گیا اور ساتھ ہی ان کے گھر مسمار کردیئے گئے، اس بابت حکام کا موقف ہے کہ مکانات اس لئے مسمار کر دیئے گئے تاکہ یہ لوگ واپس آکر یہاں نہ رہ سکیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے مکانات مسمار کردیئے گئے ہیں وہ طورخم سرحد کے راستے واپس افغانستان روانہ ہوگئے ہیں۔

ملا گوری کے علاقے میں یہ افغان گزشتہ 40 برس سے مقیم تھے لیکن ان کا کہیں بھی اندراج نہیں کیا گیا تھا تاہم جب انہیں کہا گیا کہ عدم رجسٹریشن کیوجہ سے انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے تو وہ اس کیلئے بھی آمادہ ہو گئے تھے لیکن حکام نے ان کی درخواست مستر د کردی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھجوانے کیلئے باقاعدہ حکمت عملی مرتب کرلی ہے اس حکمت عملی کے تحت صوبے کے بندوبستی علاقوں میں بھی افغان پناہ گزینوں کو کہا جارہا ہے کہ جو غیر رجسٹرڈ ہیں وہ واپسی کیلئے تیاری کریں گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک لحاظ سے افغان پناہ گزینوں کووارننگ جاری کردی گئی ہے کہ وہ واپسی کیلئے تیاری شروع کردیں، بہر حال اس وقت جو پالیسی تیار کی گئی ہے اس کے تحت ہر علاقے سے ہی پنا گزینوں کو نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ سردست بندوبستی علاقوں میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے گرد اس انداز سے گھیرا تنگ نہیں کیا جارہا ہے۔

قبائلی علاقوں میں بندوبستی علاقوں کی نسبت افغان پناہ گزینوں کا کھوج لگانا زیادہ آسان ہے جبکہ شہروں میں آکر بسنے والوں نے اپنی طرز بودباش تک بدل ڈالی ہے اور ان کا کھوج لگانا بہت مشکل ہوچکا ہے اور ان میں سے جو قومی شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں ان پر ہاتھ ذرا سوچ سمجھ کر ہی ڈالا جائے گا،اس لئے ابھی شہری علاقوں میں ہاتھ ہولا رکھا گیا ہے لیکن قبائلی علاقوں کی طرف سے سختی کی جارہی تاکہ دسمبر میں کم از کم ان علاقوں کی طرف سے حکومت کو سکون ہو۔

ذرائع کے مطابق چونکہ قبائلی علاقوں میں مروجہ قوانین کے تحت چھپنا یا دو بارہ آباد ہونا نسبتاََ زیادہ آسان ہے اس وجہ سے وہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ کرلیا جائے تاکہ یکم جنوری 2017ء سے بلا تفریق ہر قسم کے پناہ گزینوں پر ہاٹھ ڈالا جاسکے جبکہ قبائلی علاقہ جات کو اس سے پہلے ہی پاک کیا جارہا ہے۔ پشاور سمیت دیگر علاقوں میں بھی اس پالیسی پر کام جاری ہے ،اس مقصد کیلئے مساجد کے ذریعے اعلانات کرائے جارہے ہیں جس کے تحت چار سدہ، مردان،صوابی جلوزئی وغیرہ میں باقاعدہ مساجد سے کئے جانے والے اعلانات میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مہاجر کیمپ یا کہیں اور مقیم ہیں تو علاقہ خالی کرکے واپس اپنے وطن چلے جائیں،ان علانات کی اطلاعات مختلف علاقوں سے وصول ہوئی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی حکام کی جانب سے یہ اعلانات کرائے گئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اعلانات پر تو کوئی بھی واپس نہیں گیا،تاہم متعلقہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو بتدریج بڑھایا جائے گا، تاہم کسی کو بھی اب مزید یہاں نہیں رہنے دیا جائے گا، اس پالیسی کر اگر دیکھا جائے تو بہت فائدہ ہوا ہے اور پناہ گزینوں میں خوف بیٹھ گیا ہے کہ اس بارمعاملات سنجیدہ ہیں جس کی وجہ کچھ حکومتی کام بھی آسان ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ ساتھ ہی مرکز کی طرف سے جب اس بابت ہدایات باقی تینوں صوبوں کو جاری کی گئی ہیں جس کے تحت ہر صوبے کو کہا گیا ہے کہ اپنے یہاں موجود افغان پناہ گزینوں کا ڈیٹا اکٹھا کرے اور پھر ان کو چلتا کرے، واضح ہوکہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ گمان کیا جاتا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کا مسکن کے پی ،بلوچستان اور سندھ ہی ہیں جبکہ پنجاب میں بہت کم پناہ گزین ہیں لیکن یہ خیال درست نہیں بلکہ اگر پشاور کی طرف سے پنجاب جائیں تو پنجاب کے پہلے ضلعے اٹک میں ہی سے ان کی بہتات شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ پنجاب کے آخری سرحد صادق آباد تک جاری رہتا ہے۔

پنجاب کا شاید کوئی ضلع ایسا ہو کہ جہاں یہ افغان پناہ گزین نہ ہوں اور ستم تو یہ ہے پنجاب کے ان اضلاع کے باسیوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ لوگ افغان پناہ گزین ہیں ،ان کے خیال میں یہ سارے لوگ ”پٹھانوں “کے زمرے میںآ تے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے خیال کے مطابق یہ مہاجر نہیں بلکہ صوبے کے باسی ہیں، اس صورتحال کی وجہ سے ان پناہ گزینوں کو فائدہ ہورہا ہے،تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو افغان پناہ گزینوں کی بودوباش سے اچھی طرح واقف ہیں ان کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ اس مسئلے سے جان چھرائی جاسکے، اس ضمن میں حکومت پنجاب نے ابتدائی کوششوں کے تحت تمام تھانوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ اپنے حدود میں بسنے والے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کریں۔

حکومت پنجاب ان افغان پناہ گزینوں کو کس طرح اپنی آبادی سے نکالتی ہے یہ کام خاصا دلچسپ ہوگا،تاہم کے پی کے میں تو پناہ گزینوں نے حکومتی موڈ کو بھانپتے ہوئے کوچ کا ارادہ کرلیا یہ بدلاؤ کس وجہ سے آیا ہے اس بارے میں دوبنیادی محرکات ہیں جس میں سرفہرست تو صوبائی حکومت کی سنجیدگی قابل ستائش ہے اور اگر تحریک انصاف جو تبدیلی کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتی وہ اگر صوبے کو ان پناہ گزینوں سے چھٹکارا دلا دیتی ہے تو یہ واقعی بہت بڑی تبدیلی ثابت ہوگی کیونکہ اب جو بھی حکومت اگر ان بن بلائے مہمانوں کے قیام کو طول دے گی اسے عوام کی طرف سے لعن طعن کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا۔

افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے پہلے ہی صوبے میں مقامی لوگ تیزی سے ان پناہ گزینوں کے دست نگر ہونے والے ہیں کیونکہ یہ لوگ معاشی میدان میں چھا چکے ہیں جبکہ مقامی آبادی میں اب ہر سطح پر ان کے خلاف جذبات شدید متاثر ہوتے جارہے ہیں، اس وجہ سے حکومت نے بھی بے لچک رویہ اپنارکھا ہے اور پہلے مرحلے میں غیرقانونی طور پر صوبے میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہے۔

حکومت کی سنجیدگی افغان پناہ گزینوں کے اس اعتراف سے بھی واضح ہوتی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ”افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اب انہیں ہر جگہ روک کر چیکنگ کرتے ہیں اور ہراساں کرتے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ اب واپس ہی افغانستان کو جایا جائے“ اس بارے میں صوبائی حکومت کے مشیر اطلاعات مشتاق غنی نے کہا ہے کہ ”رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جا رہی جبکہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف پہلے سے کاروائی جاری ہے“ ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرڈافغان پناہ گزینوں کی رہائش گاہ میں 6 ماہ کی توسیع کی گئی ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں لیکن جو لوگ ہمارے صوبے کا امن خراب کرنے کے درپے ہیں ان کے ساتھ کو ئی رعایت نہیں برتی جائے گی، ایک طرف اس معاملے میں حکومتی سنجیدگی ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا دعویٰ ہے کہ جب سے صوبائی حکومت نے سختی کی ہے ان کے پاس رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اورروزانہ تقریبا 300 افراد واپس جارہے ہیں، واپسی میں اس اضافے کی بڑی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ پہلے واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کو 200 ڈالر فی خاندان دئے جاتے ہیں اور اب 400 ڈالر فی خاندان دیئے جا رہے ہیں، بہرحال اس اضافی رقم کی پیشکش کے باوجود پناہ گزینوں کی بڑی تعداد واپس جانے سے کترا رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان کی واپسی ٹل جائے لیکن پاکستان سے ان کو کسی سے کچھ امید نہیں لیکن دوسری طرف افغانستان سے بھی یہ پناہ گزین زیادہ پر امید نہیں۔

افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی ان کے ہیرو ہیں جبکہ اشرف غنی زیرو ہیں جنہوں نے بہترین ڈپلومیسی سے بارہ سال اقتدار میں رہتے ہوئے کبھی پاکستان کے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا کہ افغان پناہ گزینوں کو واپس لایا جائے گا۔ افغان پناہ گزینوں نے اشرف غنی کے خلاف اپنا غصہ اس طرح سے ٹھندا کیا ہے کہ انہوں نے صدر اشرف غنی کو کہہ دیا ہے کہ اگر وہ اپنے پیش رو حامد کرزئی کی طرح ہمارا پاکستان میں قیام نہیں بڑھوا سکتے تو پھر افغانستان میں ان کیلئے دوکنال کے رہائشی بنگلے کے ساتھ نقدی کا بھی انتظام کریں تاکہ وہ واپس آکر اپنی عزت زندگی کا آغاز کرسکیں۔

ایسے میں افغان صدر اشرف غنی کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت و بصیرت سے کام لیتے لیکن انہوں نے پاکستان سے آٹے کی درآمد پر پابندی عائد کردی جس نے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ افغانستان نے اس پابندی کیلئے یہ جواز فراہم کیا ہے کہ پاکستان سے آنے والا آٹا غیر معیاری ہے، اس پابندی کو اچانک عائد کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو کافی نقصان بھی ہوا اور دوریوں میں اضافہ بھی ہوگیا ہے جو کسی بھی مفاد میں نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Afghan Panah Guzeenon Ki Ultii Ginti Shuru is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.