2015 میں امریکہ نے کتنے بم گرائے تھے؟

امریکہ نے دنیا بھر میں ہر اس مقام کو نشاہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے جہاں دہشت گردوں کے چھپے ہونے کا خدشہ بھی ہو۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی فضائی قوت ہے جس میں ڈرون طیارے سر فہرست ہیں

بدھ 3 فروری 2016

2015 Main America Ne Kitne Bomb Giraye The
امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی واحد سڑٹیجی ہر اس شخص کی ہلاکت ہے جس کو وہ دہشت گرد سمجھتا ہے۔ اسی اندھا دھند امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر اس ملک میں دہشت گردی کے سائے مہیب شکل وصورت اختیار کر چکے ہیں جہاں امریکہ اس کے خاتمے کے لیے حملہ آور ہو اتھا ۔امریکہ نے جس قدر وسائل دہشت گردوں کو مارنے پر خرچ کئے ہیں۔ اس سے نصف سے بھی کم وسائل جن میں عسکری ،معاشی، سیاسی اور افرادی وسائل شامل ہیں دہشت گردی کا موجب بننے والے عوامل کے خاتمے پر صرف کئے جاتے تو اس کے خاطر خواہ مثبت نتائج سامنے آسکتے تھے ۔

امریکہ نے بیماری کے خاتمے کی بجائے بیماروں کے خاتمے کو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔
امریکی پالیسی سازوں نے دہشت گردی کے خلاف حقیقی معنوں میں جنگ جیتنے کے لیے انسانوں کو ہلاک کرنے اور شہروں کو اجاڑنے کی بجائے دلوں کو جیتنے اور ذہنوں کو بدلنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا۔

(جاری ہے)

امریکی گردوں کو ہمدرد و افر تعداد میں میسر آجاتے ہیں۔


امریکہ نے دنیا بھر میں ہر اس مقام کو نشاہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے جہاں دہشت گردوں کے چھپے ہونے کا خدشہ بھی ہو۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی فضائی قوت ہے جس میں ڈرون طیارے سر فہرست ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت القاعدہ کے خاتمے کے بعد امریکہ داعش کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کا واحد طریقہ امریکہ کے نزدیک یہ ہے کہ داعش سے وابستہ یا ہمدردی رکھنے والے ہر شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔

امریکی حکام کھلے بندوں یہ کہتے ہیں کہ وہ داعش سے وابستگی رکھنے والوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ داعش کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ امریکی ائیرفورس کے کمانڈر لیفیٹینٹ جرنل بیسٹرمین کہتے ہیں ،”ہم داعش کے دہشت گردوں کو ہر جگہ، ہر مقام اور ہر وقت نشانہ بنائیں گے۔ “ چند ہفتے قبل داعش کے خلاف آپریشن کی قیادت کرنے والے کرنل سٹیووارن کا یہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا ”اگر آپ داعش کے ساتھی ہیں تو ہم آپ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہی ہمارا فرض اولین ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ تمام دہشت گردوں کو فضائی حملوں یا ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاک کرنے کی امریکی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ پینٹا گون کا دعویٰ ہے کہ امریکہ ڈرون یا فضائی حملوں کے ذریعے اب تک داعش کے 25ہزار جنگجووٴں کو ہلاک کر چکا ہے۔یہ حملے گزشتہ 7ماہ کے دوران میں کئے گئے ہیں ۔25ہزار داعش دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے لیے کئے جانے والے حملوں کی زد میں آکر مرنے والے عام اور بے گناہ شہریوں کی تعداد، امریکی حکام کے دعویٰ کے مطابق ،صرف 6 ہے ۔

اس کے ساتھ امریکی حکام یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ 25 ہزار دہشت گردوں کی ہلاکت کے باوجود داعش کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور وہ ماضی کی طرح آج بھی منظم اور مضبوط ہے۔
2014 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق داعش کی کل افرادی قوت 20 سے 31 ہزار افراد کے درمیان تھی۔ چند روز قبل کرنل سٹیووارن نے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا ہے کہ داعش کے جنگجووٴں کی مجموعی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے ۔

2014 میں یہ تعداد 25 سے 31 ہزارتھی اور گزشتہ 7 ماہ کے دوران امریکی فوج نے داعش کے 25 ہزار سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا اور اس کے بعد اب بھی اگر داعش کے جنگجووٴں کی تعداد 30 ہزار ہی ہے تو امریکی فوج کی ریاضی دانی کو سات سلام ہی پیش کیئے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ برس امریکی فوج نے دنیا کے 6 ممالک میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کارروائیاں کرتے ہوئے مجموعی طور پر 23144 بم برسائے ۔

ان میں سے 22110 بم عراق اور شام پر گرائے گے ۔ داعش کے خلاف کئے جانے والے مجموعی امریکی حملوں میں 77 فیصد حملے عراق اور شام کے محاذوں پر ہی کئے گے تھے۔افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں پر امریکہ نے گزشتہ برس 947 بم برسائے۔ 11بم پاکستانی علاقوں پر پھینکے گئے۔ یمن میں امریکی طیاروں نے 5بم گرائے جبکہ 18 بم صومالیہ میں گرائے گے جہاں القاعدہ اور بوکر حرام جیسی شدت پسند تنظیمیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ آزاد ذرائع کسی طور امریکی حکومت اور فوج کے اس دعوے کو سچ ماننے پر تیار نہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں گرائے جانے والے بموں کی زد میں آکر ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تعدا محض 6 ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

2015 Main America Ne Kitne Bomb Giraye The is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2016 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.