2023ء تک بھارت کو ہندو راشٹر یہ بنانے کی مہم شروع

بھارت میں مودی کی حکومت میں ہندو فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور انہیں یہ امید ہوچکی ہے کہ ہندو ستان کو مستقبل میں ہندو راشٹریہ بنایا جاسکتا ہے چنانچہ اس مقصد کیلئے ملک و بیرون ملک موجود ہندو انتہا پسند تنظیمیں بڑی مستعدی کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔مرکزی حکومت اور یوپی کی فرقہ پرست یوگی سرکار اعلانیہ طور پر ہندوراشٹریہ کی راہ پر گامزن ہے۔

جمعرات 27 جولائی 2017

2013 Tak Bharat Ko Hindu Rashtaria Bananay Ki Mohim Shuru
رابعہ عظمت:
بھارت میں مودی کی حکومت میں ہندو فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور انہیں یہ امید ہوچکی ہے کہ ہندو ستان کو مستقبل میں ہندو راشٹریہ بنایا جاسکتا ہے چنانچہ اس مقصد کیلئے ملک و بیرون ملک موجود ہندو انتہا پسند تنظیمیں بڑی مستعدی کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔مرکزی حکومت اور یوپی کی فرقہ پرست یوگی سرکار اعلانیہ طور پر ہندوراشٹریہ کی راہ پر گامزن ہے۔

ان کا منصوبہ یہی ہے کہ 2023ء تک ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کردیا جائے اس کے لئے نیپال اور سری لنکا کی ہندو تنظیموں کے ذمہ داران اور نمائندگان نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن کا انعقاد ہندو جن جاگرن سمیتی کی جانب سے کیا گیا تھا۔ یہ تنظیم 2013ء میں اس وقت منظر عام پر آئی تھی جب نریندر بھولکر قتل کیس میں اس کے کارکن کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

(جاری ہے)

یہ کنونشن بنیادی طور پر اس مقصد سے منعقد کیا گیا کہ آنے والے چار پانچ سالوں میں بھارت کو ہندو راشٹریہ کیسے بنایا جاسکتا ہے اور اس کے لئے سیاسی رہنماؤں،بی جے پی اور مودی حکومت سے کس طرح کام لیا جائے گا۔ گائے اور گاؤ کشی کنونشن کا موضوع تھے۔ کنونشن میں شریک ویشو ا ہندو پریشد کی رہنما سادھوی سرسوتی نے کہا کہ جو لوگ بھی بیف کھاتے ہیں ان کے ساتھ دشمنوں جیسا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور حکومت فوری انہیں سزادے۔

انہوں نے گائے کے تحفظ کو مذہبی فریضہ قرار دیا اور حاضرین کو کھلے طور پر اکساتے ہوئے کہا کہ جس کے بارے میں بھی گاؤ کشی کا شبہ ہوا اسے فوری طور پر سبق سکھانا چاہیے۔سادھوی نے سیکولر ازم کے حوالے سے کہا کہ اس ملک میں ہندوؤں کی حالت اس لئے بگڑی ہے کہ وہ سیکولر ازم کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔پہلے ہندوؤں کو ہندو بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔

ہندو فرقہ پرست تنظیم سناتن سنستھا کے ترجمان نے کہا کہ بی جے پی کو اس لئے ووٹ دیا گیا تھا کہ وہ مندروں اور گایوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنے وعدے کو بھول چکی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ آج خود بی جے پی حکومت میں مہاراشٹر اور راجستھان میں مندروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔بی جے پی کے رکن اسمبلی اورشری رام یواسینا کے بانی نے کہا کہ اگر 2019ء تک رام مندر کی تعمیر شروع نہیں ہوئی تو وہ ایک کروڑ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایودھیا پر چڑھائی کردیں گے۔

اس کنونشن میں بھارت کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کے لئے مختلف منصوبے اور قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔مثلاََ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے،بابری مسجد کی تعمیر کے لئے حکومت فوری اقدامات کرے۔تبدیلی مذہب کو پورے ملک میں پابند کیا جائے۔ بنگلہ دیشی مہاجرین کو یہاں باہر نکال دیا جائے۔

چار روز ہندو کنونشن میں دل کھول کر زہر اگلا گیا اور کہا گیا کہ سب سے بڑا چیلنج خود ہندوؤں کو ہندو بنانا ہے۔ جو سیکولروں کی گرفت میں ہے۔ جنہیں سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا۔ 130 سے زائد ہندو تنظیمیں ایک پلیٹ فارم سے زہر اگلتی رہیں اور بھارت میں گائے کا گوشت کھانے پر سرعام پھانسی دینے کی باتیں ہوتی رہیں۔ چار روز ہ ہندو کنونش میں جو ہوا س پر انتظامیہ نے کوئی کاروائی نہیں کی بس ان تنظیموں سے دامن چھڑا لیا گیا ہے۔

ایسا ممکن ہے کہ کوئی مسلم تنظیم اس قسم کااجلاس منعقد کرے اور ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کو متحد کرنے کا نعرہ بلند کرے۔ ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دے اور حکومت خاموش رہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تنظیموں نے اس کنونشن کیلئے گواشہر کوچنا۔ جبکہ بی جے پی کا گوا کنونشن پر موقف ہے کہ پارٹی کا اس سناتن سنستھا سے کوئی لینا دینا نہیں جن سے ہندو جن جا گرتی سمیتی جڑی ہوئی ہے۔

دوسری جانب آر ایس ایس نے کہا کہ ”ہمارا ملک تو صدیوں سے ہندو راشٹر ہے اور ہم اسی سے پہچانے جاتے ہیں۔ “حالانکہ ایسی تنظیموں کو کنونشن منعقد کرنے کے لئے موقع فراہم کیا جاتا ہے لیکن بظاہر بی جے پی ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ قبل ازیں بی جے پی لیڈر نے لوک سبھا میں ایک بل متعارف کروادیا تھا جس میں ملک کے دستور میں ”انڈیا“ کے بجائے ”بھارت“ کا استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔

حال ہی میں اتر پردیش کے نئے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ہندو راشٹر کی بات کرنا کوئی برائی نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے سیکرٹری جنرل بھیا جی جوشی نے بھی کہا کہ جو ہندوستان میں رہتا ہے وہ ہندو ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوچ اور نظریہ ایک ہے مگر انداز بیاں الگ الگ ہے۔ ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملک میں اقلیت نوازی کے سبب ہندو دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔

مسلمانوں کو پرسنل لاء کا فائدہ حاصل ہے،جج میں سرکاری مراعات حاصل ہیں۔ کشمیر سے ہندوؤں کو نکال دیا گیا ہے‘ کوئی ہندوستانی کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ان کا ماننا ہے ہے کہ ہندوراشٹراب کوئی نعرہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس جانب سب سے پہلا قدم دستور سے سیکولر کا لفظ نکالنا ہوگا۔ ان کو یقین ہے کہ بہت جلد 80 فیصد ہندوستان ہندوراشٹر کے رنگ میں رنگ جائے گا اور اس کا سبب عوام کی پسند ہوگی۔

آر ایس ایس اپنے قیام کے روز اول سے ہی ہندوؤں کے زیر سایہ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا اظہار کرتا رہا ہے اور جب بھی اسے اقتدار میں سرپرستی ملی ہے اس نے اپنے اس ایجنڈے کو سرگرمی سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر چونکہ 2014ء سے پہلے تک بھارت کے مرکزی اقتدار پر اس کے ایجنڈے سے متعلق پارٹیاں مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھیں اس لئے اس سلسلے میں عملاََ کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

اب جبکہ اس کے سیاسی بازو بی جے پی کو مرکز کے ساتھ بھارت کے سترہ صوبوں پر اقتدار حاصل ہے اور یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ طلاق ثلاثہ ،یکساں سول کوڈ،رام مندر اور جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی وغیرہ کے موضوعات اس کی اسی سرگری کا حصہ ہیں۔ دراصل مرکز میں بی جے پی حکومت کا اپنا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے جس میں سرفہرست ہندو راشٹریہ کا قیام ہے اور وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لئے بھارت کی اقلیتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے ان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

اور موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی حکمرانوں نے نہ صرف اپنی زیر نگیں ریاستوں میں بلکہ مرکز میں اپنے اقدامات کے ذریعہ اس منصوبے پر عمل شروع کردیا ہے۔ جس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا اصل مقصد کیا ہے۔ تاہم جس طرح بی جے پی کو اقتدار میں لانے کیلئے بھارتی متعصب میڈیا نے مہم چلائی تھی اب یہ میڈیا ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی مہم میں مصروف ہوگیا ہے۔

کنونشن میں ہندو فرقہ پرست لیڈر کے مطابق مودی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا سکتے ہیں جن کے لئے سب کا ساتھ مل سکتا ہے۔ مزید ہرزہ سرائی کی گئی کہ انتخابی نتائج مسلم سیاست کے زوال کی علامت ہیں۔ اب ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا مودی کے ہاتھ میں ہے۔ ہندو اور بدھ آبادی پر مشتمل ہندو کلچر کامن ویلتھ کی تشکیل کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔کنونشن میں ابتدائی جماعتوں سے ہی ہندوستان تن دھرم کی مقدس کتابیں نصاب میں شامل کرنے رامائن اور بھگوت گیتا کا پاٹھ ہر طالب علم کے لئے لازمی قرار دینے کی قرار داد بھی منظور کی گئی ۔

کنونشن میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق ہندو راشٹریہ میں ہندوؤں کو مستحکم بنانے کے لئے حفاظت خود اختیاری کی کلاسز کا آغاز گاؤ کشی پر مکمل امتناع ،تمام شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ کا نفاذ سر فہرست رہے اور اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ مسلمان بابری مسجد کے ساتھ ساتھ کاشی متھرا کی مساجد سے بھی دستبرداری اختیار کرلیں۔ کشمیر کی علیحدہ حیثیت کی حامل دستور کی دفعہ 370 کو حذف کردیا جائے اور یہ بھی مطالبہ کیا گیا پورے بھارت میں ایک یکساں قومی تعلیمی بورڈ تشکیل دیا جائے۔

مدارس اور عیسائی مشتری تعلیمی بورڈ تشکیل دیا جائے ۔ مدارس اور عیسائی مشتری تعلیمی اداروں سمیت یتیم خانہ کمیشن ،اقلیتی وزرات کو معطل کردیا جائے۔ یوپی میں یوگی کے برسراقتدار آتے ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی تحریک میں شدت آگئی ہے۔ جبکہ نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کی گدی سنبھالنے کے بعد سرکاری طور پر بھوٹان کا دورہ کیا جہاں کا سرکاری مذہب بدھ ہے۔

اس کے بعد نیپال بھی گئے جہاں ہندو آبادی دو کروڑ 41 لاکھ 70 ہزار ہے۔ نیپال کو ویدک سناتھن ہندو راشٹریہ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ دستور کے لحاظ سے وہ ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ۔ تاہم نیپال کو شیوا بھومی،تاپو بھومی، گیان بھومی اور گاؤ رکھشا بھومی بھی کہا جاتا ہے۔ نریندر مودی کو دورہ نیپال کے دوران وہاں کے مشہور پشپاتی مندر میں پوجا کے وہاں کے سوامی نے ”ہندو دھرم کا چہرہ“قرار دیا تھا۔

بہر حال ہندوستان کو ہندو راشٹربنانے کی تحریکیں تو تقسیم برصغیر سے قبل بھی ہندو تنظیمیں چلاتی رہی ہیں۔ جن میں ”شدھی سنگھٹن تحریک“نمایاں ہے۔ تاہم 1980 ء میں بی جے پی کے قیام کے بعد سے اسے تقویت ملی۔ 6 دسمبر 1992ء کا دن اس سلسلہ میں ہندو توا طاقتوں کے لئے کامیابی کا بڑا دن تھا ،جب مسلم عہد رفتہ کی علامت تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا تھا۔

رام مندر تحریک سے رام راجبہ یاہندو راشٹر بنانے کی تحریک جاری رہی۔ دراصل بھارت میں کانگریس سمیت نام نہاد سیکولر جماعتوں کے دوغلے پن اور ان کے داخلی اختلافات نے ہندو توا نظریہ کی حامل جماعتوں کو تقویت بخشی۔ گودھر ا واقعہ کو بنیاد بنا کر 2002ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تو جتنی مسلمانوں کے قاتل اعظم نریندر مودی کی مذمت ہوئی اتنی ہی اسے مقبولیت بھی دی گئی۔

ہندو تواطاقتوں کو مودی کے روپ میں اپنا نجات دہندہ نظر آیا ۔ مودی کی مخالفت ،ان کے حق میں سند ثابت ہونے لگی۔جب وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے ان کا نام سامنے آیا تو پورے ملک کے ہندوؤں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ بالآخر میڈیا کے صحیح استعمال نے ہندوستان کی عنان اقتدار مودی کے ہاتھ میں تھمادی۔ اب ہندو اکثریتی طبقہ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔

اور یہ بھی سچ ہے کہ سیکولر کہلانے والے ملک بھارت کے ہر شعبہ حیات میں ہندو توا عناصر غالب آچکے ہیں۔پولیس ہو یا عدلیہ ہر شعبے پر ہندو توا طاقتیں چھا چکی ہیں۔ معروف بھارتی مصنفہ ،ناول نگار ،سماجی کارکن ارون دھتی رائے کے مطابق ”ہندوستان ایک کارپوریٹ ہندو سیٹلائیٹ اسٹیٹ ہے۔“ کشمیری کالم نگار سید فردوس کے مطابق ”جس ملک میں بال ٹھاکرے جیسی شخصیت کی ترنگے میں لپیٹ کر آخری رسومات انجام دی جائیں۔

فرقہ وارانہ لسانی و علاقائی خطوط پر منافرت پھیلانے والے کے آخری دیدار کے لئے نام نہاد سیکولر قائدین کی موجودگی کے بعد یہ اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ مستقبل میں گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈ سے کی تائید کرنے والے اکثریت میں آجائیں تو گوڈ سے کو ملک کا ”نیابابو“قرار دیا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

2013 Tak Bharat Ko Hindu Rashtaria Bananay Ki Mohim Shuru is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 July 2017 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.