غربت اور تعلیم و صحت کی حالت ۔۔آئی ایم ایف رپورٹ!

ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے لاکھ دعوے کئے جائیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کا نقشہ بدل دیا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کے معیار زندگی میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ مگر حقیقت اس کے قطعی طور پر برعکس ہے۔ جن حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ملک کے عوام کی عظیم اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوشحالی و ترقی کا راز مضمر ہے

پیر 24 جولائی 2017

Gurbat or Taleem O Sehat Ki Halat
خالد کاشمیری:
ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے لاکھ دعوے کئے جائیں کہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک کا نقشہ بدل دیا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کے معیار زندگی میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ مگر حقیقت اس کے قطعی طور پر برعکس ہے۔ جن حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ملک کے عوام کی عظیم اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوشحالی و ترقی کا راز مضمر ہے ایسے اقدامات کا کسی حکومتی منصوبے میں سراغ تک نہیں ملتا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو وفاق میں قریباً5 برس اور ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلا شرکت غیرے حکومت سنبھالے قریباً 8 برس ہونے کو ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں بھی اسی جماعت کی حکومت ہے مگر ان حکمرانوں کی طرف سے عوام کی معاشی ترقی، خوشحالی، شعبہ صحت میں سہولتوں کی فراہمی اور تعلیمی میدان میں عام آدمی کے بچوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کسی ایک موثر کوشش کا بھی سراغ نہیں ملتا۔

(جاری ہے)

اس افسوسناک اور کھوکھلے نعروں و وعدوں کے سہارے اپنے نام و نمود کی خواہش کا بھرم رکھنے والے ارباب اختیا زرکو ایک ایسے عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں آئینہ دکھایا جو انہی حکمرانوں کے لئے سب سے زیادہ بہتر اور قابل اعتبار ہے۔ اس ادارہ آئی ایم ایف کی طرف سے گزشتہ دنوں نوائے وقت میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صحت اور تعلیم کی صورتحال مایوس کن ہے۔

دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں تعلیم اور صحت پر کم رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ غریب طبقہ تعلیم اور صحت، علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان انتہائی پسماندہ ہے۔ جہاں پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے ۔ جبکہ پاکستان کے عوام کی 36 فیصد تعداد مفلسی کی زندگی بسر کرتی ہے۔

آئی ایم ایف نے اپنی 2017ء کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
اس سے بڑا المیہ پاکستان اور اس کے اہل عقل و خرد کیلئے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کی بیس کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں مجموعی طور پر آٹھ نو کروڑ لوگوں کو غربت و مفلسی کی زندگی سے واسطہ ہے۔ ان میں کروڑوں عورتیں اور بوڑھے شامل ہیں۔

اس پر باعث ستم بات یہ ہے کہ اس قسمت کے مارے اور حکمرانوں کی عدم توجہی سے زندگی کی ہر قسم کی سہولت سے محروم لوگوں کو نہ تعلیم کی سہولتیں میسر ہیں نہ ان کے لئے ضرورت کے مطابق سرکاری ہسپتال ہیں۔ ہسپتالوں سے ان کروڑوں بیمار پاکستانیوں کو ادویات میسر نہیں ہیں اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھر کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں مختلف تمام امراض کے مکمل شعبے تک نہیں نہ ہی ان امراض کے معالج دستیاب ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے غریب و مفلس اور بے یارو مددگار عوام ایسے امراض میں مبتلا ہو کر مجبوری و لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ارباب حکومت کی طرف سے آئے دن اس قسم کے غلط دعوے کئے جاتے ہیں کہ حکومت ہسپتالوں میں ہر قسم کے علاج معالجے کی سہولتوں سمیت ادویات کی فراہمی کر رہی ہے جبکہ موجودہ حکمرانوں کے عہد میں اس قسم کے سفید جھوٹ کے تکرار کی جو روایت قائم ہوئی ہے اس نے ”گوئبل“ کی پیدا کردہ ایسی روایات کو مات دے دی ہے، ہسپتالوں میں حالت یہ ہے کہ ایک بستر پر دو دو ، تین تین مریضوں کو لیٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

سرکاری طور پر غریب عوام کو ادویات کی فراہمی کا (مریضوں کی ضرورت کے مطابق) تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتوں کو عام آدمی کی قوت خرید کے اندر رکھنے کی ضرورت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ادویات ساز کمپنیوں کو ارباب اختیار کی ملی بھگت کے تحت ادویات کی من مانی قیمتیں مقرر کرنے کی اجازت ہے۔ شعبہ صحت کے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں حکومت کی طرف سے اس کی اصلاح پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، اس کی نبیادی وجوہ میں سے سب سے بڑی یہ ہے کہ خود ایوان اقتدار کے مکین اور ان کے اہل خاندان اسی غریب قوم کے پیسے سے اپنی معمولی سے لے کر بڑی سے بڑی پیچیدہ بیماری کا علاج کرانے کے لئے امریکی اور یورپی ممالک کی طرف پرواز کرتے رہتے ہیں۔

حتیٰ اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے بھی ترقی پذیر ممالک کے صف اوِّل کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنے کھوکھلے دعوؤں کے مطابق ہر قسم کی طبی سہولتوں سے آراستہ ہسپتال قائم کر رکھے ہوتے تو وہ خود بھی ان ملکی شفاخانوں ہی میں اپنا علاج کرانے کو ترجیح دیں مگر ان کے قول و فعل کا تضاد ان کے اسی طرز عمل سے واضح ہوتا ہے۔
ملک کا تعلیمی شعبہ بھی حکمرانوں کے ایسے ہی طرز عمل کا شکار ہو کر انتہائی تنزلی کا شکار ہے۔

موجودہ حکمرانوں کو یہ ”شرف“ حاصل ہوا ہے کہ ان کے عہد اقتدار میں ملک کے کروڑوں خاندانوں کے کروڑوں بچوں کے لئے حصول تعلیم کے دروازے بند ہوئے۔ کیونکہ اس عہد میں تعلیم کا حصول اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ جو کروڑوں خاندان خود خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کے بچے نجی سکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے سے قاصر ہیں حکومت لاکھ یہ دعوے کرے کہ بچوں کو اتنی عمر میں سکولوں میں داخل کرانا والدین کے لئے لازمی ہے۔

مگر یہ کھوکھلے نعرے تبھی سچ ثابت ہو سکتے ہیں جب حکومت کی طرف سے ملک میں عوامی ضرورت کے مطابق معیاری سکولوں کا جال بچھایا جا چکا ہوگا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکمران تعلیمی ضرورت کے مطابق قومی خزانے کا پیسہ اس مقصد کے لئے خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تعلیم کی خاطر خرچ ہونے والے زر کثیر کو ان ایسے تعمیراتی منصوبوں پر صرف کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی تعمیر سے حکمرانوں کے نام و نمود کی نمائش کا پہلو نکلتا ہو۔

شعبہ تعلیم کی ترقی اور اس کو نظر انداز کرنے کا واضح مقصد نہ صرف نونہالان قوم کو تعلیم سے دور رکھنا بلکہ مستقبل کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کر کے مستقبل کی پاکستانی قوم کو جاہل رکھنا ہے۔ یہ ایسا گناہ ہے کہ مستقبل کا مورخ اس عظیم گناہ کے مرتکب حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کر یگا۔
پاکستان کے حکمرانوں کے نزدیک قابل اعتبار آئی ایم یف کی اس رپورٹ سے قطع نظر ملک سے غربت کے خاتمے کے پروگرام وضع کرنے کی سعی تو ایک طرف حکمرانوں نے یہ بھی کبھی غور نہیں کیا کہ کروڑوں بھوکے اور فاقہ کش لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے والی ضروری اشیا ہی ایسے داموں ملیں جو ان کی قوت استطاعت کے اندر ہوں۔

گزشتہ دنوں نوائے وقت ہی میں کامرس رپورٹر کے حوالے سے شائع شدہ ایک خبر کے مطابق برائلر گوشت ، انڈوں، چاول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ ارباب حکومت کے نزدیک گویا ضروریات زندگی میں ہوش باختہ اضافہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ کبھی حکمرانوں نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ آخر وہ صنعتکار یا سرمایہ کار کون ذات شریف ہیں جو بلا وجہ اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے اور ان کی من مانی قیمتیں مقرر کر کے عوام سے جبراً وصول کرتے ہیں۔

حکمرانوں نے اس امر کا کھوج لگا کر اسے عوام تک افشا کرنا بھی گوارا نہیں کیا کہ کھانے پینے کی اشیاء تیار کرنے والی فیکٹری، صنعت یا پولٹری فارموں کے ایسے مالکان کون ہیں جو عوام کی تکالیف و مشکلات کو نظر انداز کر کے اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ ملک میں سرمایہ داروں، صنعتکاروں اور فیکٹری مالکان کے ہاتھوں کروڑوں غریب عوام یرغمال بن چکے ہیں جو باقاعدہ ارباب اقتدار کی سرپرستی میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

اگر پاکستان کے ارباب حکومت ملک میں آئین اور قانون میں دیئے گئے عوامی حقوق کی روشنی میں صدق دل کے ساتھ انسانی زندگی کے شعبوں میں اصلاحات کرنے کا عہد نہ کریں گے اور اپنے عمل سے اس کا مظاہرہ نہ کریں گے تو اس وقت تک عوام کی فلاح و بہبود کا کام کرنے کے دعوے محض سراب ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Gurbat or Taleem O Sehat Ki Halat is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 July 2017 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.