الطاف حسین کا زوال

مصطفی کمال، مجرمانہ غفلت۔۔۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک سائیکل سے سیاست کا آغاز کیا اور چند سالوں کے اندر پاکستان کی شہہ رگ کراچی کے مطلق العنان لیڈر بن گئے۔ الطاف حسین نے سندھ کی سیاست میں جو عروج حاصل کیا وہ ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے اسکے اہل تھے

جمعرات 10 مارچ 2016

Altaf Hussain Ka Zawal
قیوم نظامی:
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک سائیکل سے سیاست کا آغاز کیا اور چند سالوں کے اندر پاکستان کی شہہ رگ کراچی کے مطلق العنان لیڈر بن گئے۔ الطاف حسین نے سندھ کی سیاست میں جو عروج حاصل کیا وہ ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے اسکے اہل تھے یا دیگر عوامل نے انہیں اس قدر طاقتور لیڈر بنادیا کہ ان کے تعاون کے بغیر کسی وفاقی حکومت کا چلنا ممکن نہ رہا۔

الطاف حسین کے ہاتھ میں مضبوط ترین ہتھیار ”لسانی کارڈ“ ہے۔ اردو بولنے والے اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر وہ منقسم ہوگئے تو انکے حقوق سلب ہوکر رہ جائینگے۔ الطاف حسین کو اندرونی اور بیرونی مقتدر قوتوں کی سرپرستی حاصل رہی اور مالی وسائل فراہم ہوتے رہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے عوام کی فلاح کے نام پر ”خدمت خلق“ کا ادارہ قائم کیا۔

(جاری ہے)

کراچی کے اہل ثروت افراد سے اربوں روپے وصول کیے۔ کراچی کے عوام کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے مسلح ونگ تشکیل دیا گیا۔ ایم کیو ایم کی تنظیم سازی جمہوری اصولوں کے بجائے لشکری انداز پرکی گئی۔ کراچی کو سیکٹروں میں تقسیم کرکے سیکٹر انچارج مقرر کیے گئے۔ اس طرح کراچی میں متوازی حکومت قائم کردی گئی۔ بیرونی قوتوں کی خوشنودی اور ہوس زر کیلئے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کیا گیا۔

سیاسی جماعت کو فاشسٹ تنظیم کی طرح چلایا گیا جس کا اندرونی مقصد اردو بولنے والوں کو لسانی خوف کے ساتھ جسمانی خوف میں مبتلا رکھنا تھا اور بیرونی مقصد پاکستان کی معاشی شہہ رگ کو عدم استحکام کا شکار رکھنا تھا۔ ایم کیو ایم کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ایک ریسرچ سکالر کے مطابق جب بھی قومی مفاد اور استحکام کا منصوبہ زیر غور آتا ایم کیو ایم مختلف حیلے بہانوں سے کراچی میں احتجاج شروع کردیتی جس کا مقصد ترقی و خوشحالی کے قومی منصوبے کو سبوتاڑ کرنا ہوتا۔

الطاف حسین پر سنگین الزامات لگائے جاتے رہے۔ جناح پور، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان ، ملک دشمنی، بھارتی ایجنسی را سے فنڈز کی وصولی، منی لانڈرنگ اور ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل کون سا الزام ہے جو ایم کیو ایم اور اسکی قیادت پر نہیں لگایا گیا۔
خفیہ ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کے پاس دستاویزی ریکارڈ الطاف حسین کی اپنی تقاریر کی ویڈیوز جے آئی ٹی رپورٹیں اور اعترافی بیانات اور ملزمان موجود ہیں جن کی بنیاد پر الطاف حسین کیخلاف مقدمات قائم کرکے ان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکتا تھا۔

اسکے باوجود ریاست اور حکومت بے بس اور مجبور کیوں ہے۔ پاکستان کی ریاست اور حکومت نے مقبول عوامی لیڈروں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جب چاہا سیاسی منظر سے ہٹا دیا کیونکہ وہ محب الوطن تھے اور بلیک میلر نہیں تھے انکے پاس عوامی طاقت تھی مگر لشکری طاقت نہیں تھی لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ریاست اور حکومت بے بس ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ فوجی اور سول حکمران اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کیلئے بلیک میل ہوتے رہے اور بلیک میل کرتے رہے انہوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔رینجرز نے الطاف حسین کی لشکری طاقت پر کاری ضرب لگائی جو بلیک میلنگ کیلئے استعمال ہوتی تھی۔ ایم کیو ایم کے ہزاروں مسلح افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔ اسکے مالی ذرائع بند کردئیے گئے ہیں۔

کراچی کے عوام جان و مال کے خوف سے باہر نکل آئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انتخابی مہم کے دوران پہلی بار ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سیاسی مرکز نائین زیرو تک پہنچ گئے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنما کراچی کی بدلتی ہوئی فضا سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گھناوٴنے الزامات کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم کے امیدواروں کو ووٹ دئیے جس سے ثابت ہوا کہ کراچی کے عوام اپنی لسانی طاقت کو کمزور کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں البتہ وہ قیادت کی تبدیلی کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں ۔


ہر کمال کو زوال ہوتا ہے اور انسان دنیا میں مکافات عمل کا شکار بھی ہوتا ہے۔ قرآن کیمطابق انسان بڑے خسارے میں ہے اور وہم و گمان میں مبتلا رہتا ہے۔ خدا کے ضابطہ اخلاق کو توڑتا ہے پھر اس کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور اسکے جسمانی عناصر میں اعتدال نہیں رہتا۔ الطاف حسین بھی آج کل اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ میڈیا پر ان کی شخصیت کے بارے میں منفی اشارہ بھی ممکن نہ تھا۔

آج میڈیا پر انکی ذات کے بارے میں گھناوٴنے الزام لگائے جارہے ہیں اور وہ ان کا جواب دینے سے بھی قاصر ہیں۔ عدالت نے انکی تقاریر اور بیانات پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ پاکستان کی ریاست اس کا آئین اور قانون کمزور نہیں ہیں البتہ حکمران اشرافیہ بدنیت اور کمزور ہے جو آئینی اختیار کے باوجود بلیک میل ہوتی رہتی ہے۔ الطاف حسین کے حامی ان کے خلاف سلطانی گواہ بننے کیلئے تیار ہیں۔

ایم کیو ایم کا عسکری ونگ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے جس کا کریڈٹ رینجرز، خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کو جاتا ہے۔ کراچی کے حالات ہر حوالے سے سازگار ہوچکے ہیں۔ الطاف حسین کی قیادت کو چیلنج کرنا اور اسکی سیاسی طاقت کو چھیننا ناممکن نہیں رہا۔ قومی سلامتی کے اداروں نے نئے حالات کیمطابق نیا سکرپٹ تیار کیا ہے جس کے مرکزی کردار ایم کیو ایم کے پاپولر لیڈر مصطفی کمال ہیں جن کے بارے میں اردو بولنے والوں کو اعتماد ہے کہ وہ انکے حقوق پر پہرہ دیگا۔

ایم کیو ایم کا نام چوں کہ ملکی اور عالمی سطح پر بدنام ہوچکا ہے اس لیے اْردو بولنے والوں کیلئے ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی جائیگی جو محب الوطن ہوگی اور مرکزی دھارے میں رہتے ہوئے سیاست کریگی۔ الطاف حسین تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی اردو بولنے والوں کے نئے لیڈر ہونگے۔ انکے ساتھ ایم کیو ایم کے وہ تمام لیڈر آن ملیں گے جو الطاف حسین کے انداز سیاست سے بے زار ہوچکے ہیں۔

جیسا کہ ایم کیو ایم کے سابق وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد اسمبلی سے مستعفی ہوکر مصطفی کمال سے آن ملے ہیں۔
مصطفی کمال نے کراچی کے ناظم کی حیثیت میں مثالی ماڈل پیش کیا جسے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ کراچی کی سیاست میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جو اہل، دیانتدار اور دلیر ہو۔ مصطفی کمال میں متبادل لیڈر بننے کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔

وہ گھر کے بھیدی ہیں لنکا بھی وہ ہی ڈھائیں گے۔ حکومت ایک جانب را کی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کرتی ہے اور دوسری جانب مصطفی کمال سے ثبوت مانگتی ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ایک سیاسی حقیقت ہے جو نئے نام سے زندہ رہے گی البتہ اسکی قیادت، انداز سیاست اور حکمت عملی تبدیل ہوجائیگی۔ مصطفی کمال کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اردو بولنے والوں کا یہ خوف دور کردے کہ صرف الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہی انکے بنیادی حقوق کا تحفظ کرسکتے ہیں۔

نئی سیاسی جماعت میں ہر سطح پر ایسے افراد کو آگے لایا جائے جن پر مہاجر کمیونٹی اعتماد کرنے پر تیار ہو۔ سیاست میں کامیابی کے بنیادی اصول انتھک محنت، عوامی رابطہ، دلیری اور عوامی مسائل میں گہری دلچسپی ہے۔ قائداعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو انہی اوصاف کی بناء پر کامیاب سیاسی لیڈر بنے۔ مصطفی کمال اور انکے سرپرستوں کی نظر 2018ء کے انتخابات پر ہوگی۔

نئی سیاسی جماعت اگر فعال، متحرک اور منظم تنظیم سازی میں کامیاب ہوگئی تو کراچی کے عوام اگلے انتخابات میں اسے مینڈیٹ دینے پر آمادہ ہوجائینگے۔
اہل کراچی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر مجرمانہ وارداتوں سے تنگ آچکے ہیں اور امن کے خواہاں ہیں۔ حکمران اشرافیہ ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر بلیک میلنگ کا شکار ہوکر مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی رہی ہے البتہ ریاستی اداروں نے قومی سلامتی اور دفاع کیلئے امن و امان کے پائیدار قیام کو اور سیاست سے کرپشن اور جرائم کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی جو خلوص اور نیک نیتی پر مبنی دردمندانہ بیانات جاری کرکے عوام کو پرامید اور سرشار کررہے ہیں انہوں نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت شروع کردی ہے۔ بے بس اور مجبور عوام توقع کرتے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان ایسا فیصلہ سنائیں گے جس سے مجرموں اور انکے سہولت کاروں کا کڑا احتساب ہوسکے اور کراچی ایک بار پھر امن اور روشنیوں کا شہر بن جائے۔ کروڑوں الفاظ سے وہ ایک عمل بہتر ہوتا ہے جو مایوسی کو امید میں بدل دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Altaf Hussain Ka Zawal is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 March 2016 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.