زرعی ماہرین کاغذی کاروائیوں تک محدود

اجناس کی خریداری پر حکومت بے بس کاٹن کی تباہی کی وجہ بھارتی کپاس کی خریداری پر ٹیکس کی معافی

بدھ 28 فروری 2018

zarai mahreen kagzi karwaion tuk mahdood
غاذی احمد حسن کھوکھر
زراعت پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان 70 فیصد آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور زراعت پیشہ ہے پاکستان میں ہمہ قسمی اجناس پیدا ہوتی ہے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں پیدا ہونے والی اجناس جن میں سبزیاں فروٹس و دیگر شامل ہیں سے زیادہ مقدار میں اجناس پاکستان میں پائی جاتی ہے چاروں موسم بہترین دریائی و نہری نظام زرخیز اور سونا اگلنے والی زمین اور محنتی کسان مزدور ہونے کے باوجود حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور زراعت کے شعبہ پر زراعت کی اہمیت افادیت اور فن زراعت و کاشتکاری سے نابلد لوگوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے ملکی زراعت مسلسل زوال کا شکار ہے بھارتی زراعت دن بدن ترقی کررہی ہے جبکہ پاکستان کو جس قدر نریندرمودی نقصان نہیں پہچا سکا اس سے زیادہ ادارے کے نااہل غیر سنجیدہ سربراہ نے نقصان پہنچایا ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان معیشت کی ضامن واحد جنس کپاس کے خلاف خفیہ ہاتھا ستعمال ہورہے ہیں بھارتی کپاس کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس کا خاتمہ وطن عزیز کے ساتھ کھلم کھلا غداری ہے یوں تو گورنمنٹ آئے روز کسانوں کو مراعات و سہولیات دینے کا راگ آلاپ رہی ہے مگر حقائق اس برعکس ہے مثلاً بھارت میں فی من کپاس پر اخراجات 1050 روپے جبکہ پاکستان میں2535 روپے تک ہے کاشتکاروں سے ایپٹما زیادہ طاقتور ہے بھارت خریدی گئی کپاس سے ملکی کسانوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اس وقت کپاس کے کاشتکاروں کو سیڈ مافیا دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور ملک میں عملاً سیڈ مافیا کاراج ہے دوسری طرف زراعت کی ترقی کے بجائے تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ ریسرچ کا شعبہ یونیورسٹیوں کی بجائے اداروں کے حوالے کردیا گیا ہے حالانکہ پوری دنیا میں ریسرچ کا کام یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے اب زرعی یونیورسٹیوں میں عملہ طور پر ریسرچ نہیں کی جارہی ہے جبکہ ادارے میں کاغذی کاروائیوں کے ذریعے اربوں روپے نہ صرف ہڑپ کررہے ہیں بلکہ اداروں کو محض کرپشن کا گڑھ بناکر بے اثر کرکے رکھ دیا گیا ہے اب زرعی سائنسدان محض افسران بن کر قومی وسائل لوٹ رہے ہیں اور ادارے ناکارہ اور کھوکھلے بن گئے ہیں جعلی سیڈ جعلی کھاد جعلی زرعی ادویات فرضی انجینئرنگ واٹر مینیجمنٹ زراعت توسیع کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مینگو ریسرچ فاڈر ریسرچ،رائس ریسرچ،سائل اینڈ کنز رویشن ،سائل اینڈ واٹر ٹیسلنگ لیبارٹریز،ایگری کلچرل میکنائزیشن ریسرچ اینسٹی ٹیوٹ(ایمری) پلانٹ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ ایوب ریسرچ سمیت متعدد شعبہ جات میں فرضی اعدادوشمار سے کام لیتے ہوئے محض ایجادات پر انحصار کیا جارہا ہے زراعت کے متعلق ٹیکنالوجی و ضروریات غیر ملکی ایجاد کی ہوئی ہیں اب تو سیڈ مافیا نے مکمل پنجے گاڑ رکھے ہیں اعلیٰ افسران نے غیر ضروری پالیسیاں اپنا رکھی ہیں جس میں ٹنل ٹیکنالوجی ڈراپ ایری کمیشن جیسے مشکل اورمہنگے ترین طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں جو محدود سطح پر تو ممکن ہیں وسیع رقبہ پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کینولہ کا بیچ جو بمشکل 200 روپے فی کلو ہے جبکہ ادارے کے کار مختاروں نے1500 روپے سے بھی زائد قیمت پر خرید کیا حکومت کی طرف سے ابھی تک کپاس گندم چاول اور کماد کی بروقت اور صحیح قیمت پر خریداری کا انتظام نہیں ہوسکا محکمہ زراعت نے کینولا کی کاشت بارے میں زبردستی دباﺅ ڈالان شروع کردیا ہے کیونکہ اربوں روپے اس مقصد کے لیے مختص کرکے کرپشن کی نذر کئے جارہے ہیں فرضی امداد و شمار کے ذریعے فی ایکڑ 5000 روپے کسانوں کو دینے کا دعویٰ کیا گیا ہے جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیونکہ پنجاب بھر سے کس طرح تصدیق کی جاسکتی ہے کہ اتنی رقم کسانوں کو دی گئی ہے، زراعت کی ترقی کے لیے حکومت ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے زرعی انجینئرز زرعی سائنسدان کاغذی کاروائیوں کی بجائے عملی کام کرنے کے پابند ہیں افسوس ہے کہ زراعت کا شعبہ ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کے آباﺅاجداد بھی زراعت سے واقف تھے نہ وہ زراعت کے متعلق جانتے ہیں ریسرچ کے نام پر افسر شاہی قائم ہے 11 کروڑ آبادی کے صوبے کا محکمہ زراعت محض اپنے 35 ہزار ملازمین کے مسائل حل نہیں کرسکتا وہ کسانوں کے مسائل کس طرح حل کرسکتا ہے جب تک کسان سے اجناس خریدنے کا مضبوط مستحکم انتظام نہ ہوگا اور اجناس کی خریداری کھیت سے نہ ہوگی اور مڈل مین کا کردار ختم نہ ہوگا اس وقت تک نہ کسان خوشحال ہوسکتا ہے نہ ہی ملک ترقی کرسکتا ہے اس میں حکومت مخلص نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ کسان سود خوروں سے ضروریات بھاری شرائط پر خرید کر منافع خوروں کو اپنی پیداوار دینے کے لیے مجبور ہوجاتا ہے بجلی سستی اور زرعی ضروریات کم نرخ پردئیے جائیں1997 سے لے کر2015 تک جعلی زائد المیعاد زرعی ادویات اور کھاد بیچ کا دھڑلے سے کام ہوا ہے جو تاحال کسی نہ کسی طرح ہورہا ہے جعلی زرعی ادویات کا کاربار کرنے والوں کا کھُرا بااثر سیاستدانوں اور محکمہ زراعت کی اعلیٰ بیوروکریسی کی طرف سے جاتا ہے حکومت کو چاہئے کہ دریاﺅں کے خشک ہونے پر فکر کرتے ہوئے عالمی عدالت سے رجوع کرکے بھارتی آبی دہشت گردی کے خلاف مقدمہ کریں افسوس ہے بھارت اپنے دہشت گردانسانیت کے قاتل کلبھوشن یادیو کے حق میں عالمی عدالت سے فیصلہ لے آیا ہے جبکہ پاکستان حکمرانوں کو اپنی نسلوں کی بقاءکے لیے توفیق نہیں ہورہی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

zarai mahreen kagzi karwaion tuk mahdood is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 February 2018 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.