ٹیکس اصلاحات کی ضرورت

عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمت 47 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے اس حساب سے پاکستان میں حکومت کو پیٹرول 37 روپے لیٹر اور ڈیزل 40 روپے لیٹر دینا چاہئے لیکن اس وقت ایڈیشنل ایکسائز ڈیوٹی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے باعث عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمتوں میں کمی کا عام آدمی کو ریلیف نہیں مل رہا بلکہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ پیٹرول پر 21 روپے اور ڈیزل پر 17 روپے فی لیٹر ایڈیشنل ایکسائز ڈیوٹی جبکہ پیٹرول پر 13 اور ڈیزل پر ساڑھے 7 روپے ویلیو ایڈڈ ٹیکس عائد ہے۔ اگر حکومت یہ ٹیکس واپس لے لے

منگل 4 اکتوبر 2016

Tax Islahat Ki Zaroorat
رحمت خان وردگ:
عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمت 47 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے اس حساب سے پاکستان میں حکومت کو پیٹرول 37 روپے لیٹر اور ڈیزل 40 روپے لیٹر دینا چاہئے لیکن اس وقت ایڈیشنل ایکسائز ڈیوٹی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے باعث عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمتوں میں کمی کا عام آدمی کو ریلیف نہیں مل رہا بلکہ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔

پیٹرول پر 21 روپے اور ڈیزل پر 17 روپے فی لیٹر ایڈیشنل ایکسائز ڈیوٹی جبکہ پیٹرول پر 13 اور ڈیزل پر ساڑھے 7 روپے ویلیو ایڈڈ ٹیکس عائد ہے۔ اگر حکومت یہ ٹیکس واپس لے لے تو ملک میں مہنگائی کی شرح میں ایک دم سے زبردست کمی آئیگی جس سے ہر چیز کی قیمت میں عام آدمی کو زبردست ریلیف ملے گا۔ حکمران جماعت نے الیکشن 2013ء میں عوام کو جو سہانے خواب دکھائے تھے اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ضروری ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ظالمانہ ٹیکسوں کی بھرمار کو ختم کیا جائے اور عالمی منڈی میں قیمتوں کی کمی کا ریلیف عام آدمی تک منتقل ہو سکے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی ایک زرعی ملک ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے جبکہ کسان کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا اسی لئے کسان اتحاد دھرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ مہنگے ڈیزل کی وجہ سے ٹیوب ویل سے آبپاشی کے علاقوں میں فصل کی لاگت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے اسی طرح زرعی مشینری میں بھی مہنگے ڈیزل کے باعث کسان کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ حکومتی پالیسیوں کے باعث فصل کے وقت مقررہ قیمت نہ ملنے سے کسان کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ نقد آور فصلوں کی مناسب قیمت کا تعین کر کے سرکاری طور پر اس کی مکمل خریداری کو یقینی بنائے اسی طرح سے گنے کی فصل کی ادائیگی کیلئے شوگر ملز کو پابند کیا جانا چاہئے۔ شوگر ملز میں سب سے مناسب طرز عمل جہانگیر ترین کا ہے جو کسانوں کو گنے کی پوری قیمت بروقت ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر شوگر ملز کا رویہ انتہائی نامناسب ہوتا ہے خصوصاً سندھ میں گنے کی کٹائی کے وقت کسان سڑکوں پر آ جاتا ہے۔

کسانوں کے احتجاج پر یہ کہہ دینا درست نہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں فصل کی قیمت زیادہ مقرر کی گئی ہے اس سے زیادہ اور کیا کر سکتے ہیں؟ یا یہ کہنا کہ فلاں صوبائی حکومت نے کونسا کسانوں کو ریلیف دے دیا ہے کہ ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بھارت نے اپنے آبی ذخائر سے مکمل استفادہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسانوں کو فصل سے پہلے آسان شرائط پر کھاد، بیج، زرعی مشینری وغیرہ انتہائی مناسب قیمت پر فراہم کی جاتی ہے جس سے بھارت کا کسان خوشحال ہے اور فی ایکڑ پیداوار بھی پاکستان سے زیادہ ہے جبکہ یہاں کسان کو مہنگی بجلی‘ مہنگے ڈیزل‘ مہنگی کھاد سے کاشتکاری کرنی پڑتی ہے اور جب کٹائی کا وقت آتا ہے تو حکومت نامناسب قیمتوں کا تعین کر دیتی ہے اور ان قیمتوں پر بھی فصل کی خریداری کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور کسانوں کو کمیشن مافیا کے سپردکر دیا جاتا ہے جس سے زراعت کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

کسانوں کے جائز مطالبات پورے ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ کسان کی خوشحالی میں ہی پاکستان کی خوشحالی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام تنخواہ دار اور غریب آدمی کو منتقل نہ کر کے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک عام غریب اور تنخواہ دار آدمی کیلئے نہیں بنا بلکہ سرمایہ دار اور صنعتکاروں کا ملک ہے ۔ سرمایہ داروں کیلئے ہی اس ملک کی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جس میں عام آدمی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا حالانکہ صنعتکار اپنی مصنوعات کی قیمتوں کا تعین فرنس آئل کی لاگت پر کرتے ہیں جس پر منافع لیکر مصنوعات فروخت کی جاتی ہیں چونکہ اس ملک کی پالیسیاں صنعتکاروں کیلئے بنائی جاتی ہیں اس لئے گیس کی فراہمی میں بھی اولین ترجیح صنعتوں کو رکھا جاتا ہے حالانکہ گیس کی فراہمی میں پہلی ترجیح گھریلو صارفین، دوسری ترجیح تھرمل پاور اسٹیشن اور تیسری ترجیح سی این جی سیکٹر ہونا چاہئے اور ان ترجیحات کے بعد اضافی گیس صنعتوں کو دی جائے ورنہ صنعتکار فرنس آئل پر اپنی فیکٹریاں چلائیں اور اس وقت چونکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں کم ہیں تو حکومت کو بھی چاہئے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرے۔

صنعتکار جنرل سیلز ٹیکس بھی مصنوعات کی قیمت میں جمع کرکے مصنوعات کی قیمت بمع ٹیکس اپنے صارفین سے وصول کرتے ہیں جبکہ سیلز ٹیکس ”ری فنڈ“ لے لیا جاتا ہے جس سے ملکی خزانے کو بھی بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ سیلز ٹیکس سمیت تمام ٹیکسز کی شرح انتہائی کم کرکے ہر قسم کے ٹیکس سے ”ری فنڈ“ کی سہولت کا مکمل خاتمہ کر دے۔

ٹیکس کی شرح کم ہونے سے مصنوعات کی قیمتیں خود بخود کم ہو جائیں گی جس سے عام آدمی کو براہ راست فائدہ پہنچے گا اور ٹیکسوں سے ”ری فنڈ“ ختم ہونے سے ٹیکس کے معاملات میں کرپشن کا مکمل خاتمہ ممکن ہو گا۔ ”ری فنڈ“ کے معاملے میں چونکہ ٹیکس کے محکمے کے افسران و اہلکاروں کو بہت ”مال“ مل جاتا ہے اس لئے انکی کوشش ہوتی ہے کہ ”ری فنڈ“ کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہو تاکہ اسی شرح سے ”ری فنڈ“ میں بھی بھاری رقوم کا معاملہ ہو گا۔

ٹیکس کے نظام میں اصلاحات بہت ضروری ہیں اور عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور ٹیکس کی شرح میں کمی کرنا بہت ضروری ہے۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن اس سلسلے میں عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث عوام کو فوری طور پر ملنے والا ریلیف بھی نہیں مل پا رہا۔

اگر عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم نہ ہوتیں تو ملک کی معیشت کو کس طرح چلایا جاتا؟ پیٹرولیم مصنوعات میں ظالمانہ ٹیکس لینے کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف سے بھاری قرض بھی لئے ہیں۔ اگر عوام کو ریلیف نہ دیکر ملک کو قرض کی دلدل سے نکالا جاتا تو بھی پاکستانی قوم خوش ہوتی لیکن نہ تو عوام کو جائز ریلیف مل رہا ہے اور نہ ہی ملک کو قرض کے چنگل سے چھٹکارا مل رہا ہے۔

دونوں پہلووٴں سے عوام اور ملک معاشی بوجھ تلے دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ قومی سطح کے میگا پروجیکٹس بھی قرض لیکر تعمیر ہو رہے ہیں اور ملکی بقاء کے لئے ضروری منصوبوں پر وفاق کی جانب سے مکمل مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
ہم ہر سطح پر بھارت سے مقابلے کی بات کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہمیں اپنی کارکردگی کا محاسبہ بھی کرنا چاہئے۔

بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے بغیر سستی بجلی کی فراہمی ناممکن ہے لیکن موجودہ حکومت کو ساڑھے تین سال ہونے کے باوجود کسی ایک بھی بڑے ڈیم کی تعمیر کی جانب مناسب پیشرفت سامنے نہیں آئی بلکہ آبی ذخائر کی تعمیر کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اگر سستی بجلی کی فراہمی نہ ہوئی تو بھی عوام کا جینا محال ہونے کیساتھ ساتھ صنعت و زراعت کی ترقی ناممکن ہے۔

عالمی مارکیٹ میں مصنوعات کی قیمتوں کا مقابلہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب صنعت و زراعت کو سستی بجلی، پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال میسر ہو گا۔ ان تمام پہلوں پر موثر منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عوام کو ریلیف اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنی پالیسیاں اس طرح تشکیل نہیں دے دیتی کہ عام تنخواہ دار آدمی کو بنیادی اشیاء کی سستی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کو ان تمام معاملات میں مشاورت کرکے انقلابی فیصلے کرنے ہوں گے اور یہ چھاپ حکومت سے ختم کرنی ہو گی کہ یہ حکومت صنعتکاروں کی حکومت ہے اور ہمیشہ انہوں نے سرمایہ داروں کا ہی تحفظ کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Tax Islahat Ki Zaroorat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 October 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.