تیل سستا ہو گیا

مہنگائی کم کیوں نہیں ہوتی؟۔۔۔عام استعمال کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہ ہو سکی۔ حالانکہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے پر اشیاء کی قیمتوں میں فوراًاضافہ کیا جاتا ہے۔ سستا ہونے پر عوام کی ریلیف نہیں دی جا سکی

ہفتہ 10 جنوری 2015

Tail Sasta Ho Giya
غلام زہرا :
ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے پیش نظر اُمید کی جا رہی تھی کہ اب مہنگائی بھی کم ہوجائے گی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی بھی نہیں کی گئی اور اگر کہیں کمی ہوئی بھی تو آٹے میں نمک کے برابر۔یہی صورتحال دیگر اشیاء کی ہے۔ عام استعمال کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہ ہو سکی۔

حالانکہ پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے پر اشیاء کی قیمتوں میں فوراًاضافہ کیا جاتا ہے۔ سستا ہونے پر عوام کی ریلیف نہیں دی جا سکی۔
کنڈیکٹر نے مسافروں سے کرائے کا مطالبہ کیا تو تقریباًسبھی نے اپنا اپنا کرایہ نکال کر اسے دینا شروع کردیا مگر ایک ادھیڑ عمر خاتون نے کنڈیکٹر سے سوال کیا کہ یہ جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا طوفان اُٹھا ہوا ہے اس کی وجہ سے تو کرائے کم ہونے چاہئیں کنڈیکٹر نے صاف جواب دیا کہ ہم خود مزدور ہیں مالک سے پوچھیں۔

(جاری ہے)

ڈارئیور خاموش نہ رہ سکا اس نے کنڈیکٹر کو مشورہ دیا کہ جو سواری کرائے کے نام پر بحث کرے اسے اتار دو۔ چاہیے تو تھا کہ کرایوں سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی کی جاتی مگر شاید ہمارے یہاں دستور ہی نرالا ہے ورنہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اثر کم وبیش ہر چیز پر پڑتا ہے ۔ معاشی پنڈتوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے ملکی تجارتی خسارہ کم ہوگا۔

پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور مہنگائی میں بھی کمی ہو گی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوا اس کا فوری اثر لوگوں کی زندگی پر پڑا۔ عام آدمی نے سفر کی صعوبتوں سے لے کر تقریباََ ہر چیز میں مہنگائی کا عذاب جھیلا۔
اب جب کہ تیل کی قیمتوں میں اچھی خاصی کمی ہوگئی ہے تو محکمہ ریلوے نے کرایوں میں جو 15 سے 30 فیصد کمی کی تھی اس پرہی اکتفا کر لیا ہے۔

اس کا فائدہ لمبے روٹ پر جانے والے لوگوں کو ہی ہوا۔
عام آدمی کو پھل، سبزی ، آٹا ،دال اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور مہنگائی کا وہی عالم ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کمی کے بعد دو سال پرانی سطح پر آگئیں۔ اگست2012 میں پٹرول کی قیمت93.57 روپے تھی۔ 2010 سے 2012 کے درمیان پٹرول کی قیمت فی لٹر 73 سے 108 روپے کے درمیان رہی۔

اس دوران چیزیں مہنگی ضرور ہوئیں مگر اب قیمتیں کم ہونے پر اشیاء سستی نہیں ہو رہیں۔روٹی ، دال اور دودھ سستا نہیں ہوا۔ پھل تو دور کی بات ،جو سبزیاں پانچ برس قبل پندرہ سے بیس کلو میں باآسانی دستیاب تھیں، اب اُن کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
کپاس کی قیمتوں میں کمی کی خبر ایک خاتون ن سنی تو خوش ہو کری کہنے لگیں پھر تو کپڑا بھی سستا ہو جائے گا۔

ملک میں لاگوفری مارکیٹ اکانومی کے نظام اور کمزور ریگولیٹری فریم ورک کی موجودگی میں سبزیوں ، دالوں ،دودھ، ادویات ، ڈاکٹر کی فیس جیسی لاکھوں اشیاء اور سروسز کو پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے سستا کرانا زمینی حقائق سے کوسوں دور لگتا ہے۔ پاکستان فلورملزایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پہلے ہی کم نرخوں پر آٹا فروخت کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب ریٹ کم نہیں ہوں گے۔

محکمہ ریلوے نے نوے روز کیلئے ٹرینوں کے کرایوں میں کمی کی جو نوید سنائی تھی اُسے جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرایوں میں مزید کمی نہیں کر سکتے۔ ٹرانسپورٹ مالکان کی اکثریت سی این جی اور ایل پی جی پر گاڑیاں چلانے کا عندیہ دے کر کرایوں میں اضافہ کا بوجھ اپنے سر لینا گوارا نہیں کر رہی۔ پی آئی اے اور نجی فضائی کمپنیاں بھی کرائے کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

رہ گئیں صنعتیں جن کے دم سے ہم تک ہر چیز پہنچتی ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ ان میں بھی قیمتیں کم کرنے کا دم خم نہیں ہے۔ دوسری جانب حکام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک بار پھر نئے سال کے آغاز میں پٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سننے کے بعد عوام کا یہی کہنا ہے کہ پہلے قیمتیں کم ہونے سے کیا ہوا ہے جواب ہوگا۔

یہ مہنگائی کیسے ختم ہوگئی جبکہ پٹرولیم مصنوعات پر 5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ الگ بات ہے کہ ہائیکورٹ نے اس پر فوری عملدرآمد کرنے سے روک دیا ہے اس صورتحال میں شہری حلقوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اصولی طورپر ٹرانسپورٹ ،ریل کے کرایوں سمیت بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی نمایاں کمی کرے کیونکہ تیل سے چلنے والے پلانٹس کو اب سستے نرخوں پٹرول دستیاب ہو رہا ہے۔
وفاقی حکومت کو اس بارے میں مثبت اور ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومتیں بھی مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ ضروری ہے کہ بجلی ،ٹرانسپورٹ کرایوں، صنعتی اور زرعی پیداواری قیمتوں میں کمی ہو۔ ایسا نہ ہوا اس کے ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tail Sasta Ho Giya is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 January 2015 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.