صنعتی و معاشی حب

بنیادی سہولتوں سے محروم۔۔۔۔ سندھ حکومت کی روایتی بے حسی‘ لاپرواہی وغفلت اوربلدیاتی ودیگرسرکاری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے ملک کے معاشی حب کراچی کو گندگی وکچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ویسے تو پورا شہر کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے

منگل 25 اگست 2015

Sanati O Muashi Hub
خورشید انجم:
سندھ حکومت کی روایتی بے حسی‘ لاپرواہی وغفلت اوربلدیاتی ودیگرسرکاری اداروں کی مجرمانہ غفلت نے ملک کے معاشی حب کراچی کو گندگی وکچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔ویسے تو پورا شہر کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے لیکن صنعتی زونز میں صحت وصفائی کی صورتحال تشویشناک ہے۔ کورنگی ‘ سائٹ‘ بن قاسم‘ نارتھ کراچی ‘سپر ہائی وے کے صنعتی علاقوں میں بلدیاتی اور دیگر سرکاری اداروں کی نااہلی کے باعث سیوریج سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے جس کے باعث بیشتر صنعتی علاقوں میں جگہ جگہ گٹر ابلنے سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کرکھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں۔

صنعتی علاقوں میں قائم کچرا کنڈیوں کی عدم صفائی کے باعث تعفن پھیل رہا ہے۔ شہر قائد کے تمام صنعتی زونز میں صحت وصفائی کا فقدان اورفراہمی آب معطل ہے۔

(جاری ہے)

وفاق کو تقریباً 70فیصد ریونیو دینے کے باوجود کراچی کے صنعتی زونز تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ طویل بدامنی کے بعد آپریشن کے نتیجے میں امن وامان کی صورتحال میں قدرے بہتری کے باعث تجارتی وصنعتی سرگرمیوں میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے لیکن بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اورتوانائی بحران کے صنعتی وتجارتی شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

کئی سالوں سے جاری بدامنی اورتوانائی بحران سے تنگ آکر اپنا سرمایہ بیرون ملک اوراندرون ملک منتقل کرنے والے صنعتکار وتاجرامن وامان کی صورتحال میں بہتری کے بعد واپس کراچی کا رخ کرنے لگے ہیں لیکن بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اورحکمرانوں کی معیشت کے فروغ کیلئے عدم دلچسپی سے بیشتر صنعتکاروں وتاجر دلبرداشتہ ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر کراچی کے دوروں کے دوران اپنے من پسند صنعتکاروں وتاجروں کے ساتھ فوٹوسیشن کرانے کے بعد واپس اسلام آباد چلے جاتے ہیں۔

صنعتی اداروں کے مسائل کے حل کیلئے وفاقی اور سندھ حکومت کی پالیسی ایک جیسی ہے۔ صنعتی وپیداواری شعبوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور دیگرمسائل کے حل کیلئے وفاقی وصوبائی حکومت کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ وفاقی وزراء اورصوبائی وزیر صنعت وتجارت کی صنعتی وپیداواری شعبوں کے فروغ کیلئے سرگرمیاں محض فوٹو سیشن تک محدود ہیں۔
بلدیاتی نظام کے خاتمے بعد بنیادی مسائل کے حل کیلئے بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی وسفارشی بنیادوں پر صنعتی ایڈمنسٹریٹرز اورٹاوٴن میونسپل آفیسرز کی تعیناتی ہے ۔

صنعتی وتجارتی علاقوں میں تعینات بلدیاتی عملہ صفائی ستھرائی کی بجائے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہا ہے۔ کراچی بھر کے بلدیاتی ملازمین اپنی آدھی تنخواہیں ایڈمنسٹریٹرز اور ٹی ایم اوز کو اپنے فرائض ادا نہ کرنے کی مدمیں ادا کرتے ہیں اور آدھی تنخواہوں پر وہ خود گزارہ کرتے ہیں۔ یہی صورتحال واٹر بورڈ کی ہے۔ واٹر بورڈ کے حکام وعملے کی ملی بھگت سے کراچی میں پانی کے کاروبار نے باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔

غیرقانونی ہائیڈرنٹس کی بھرمار سے صنعتکار اپنے حصے کا پانی بھی خرید کر صنعتیں چلانے پر مجبور ہیں۔ قلت آب‘ صفائی ستھرائی کے فقدان اورتوانائی بحران کے باعث صنعتی شعبوں کی زبوں حالی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے اوربیشتر صنعتکار اس صورتحال سے شدید پریشانی اورمشکلات سے دوچار ہیں۔
شہر قائد کے صنعتی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے جہاں وفاقی اورصوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں وہاں فیڈریشن‘ کراچی چیمبر‘ کاٹی‘ نکاٹی‘ بقاٹی‘ سائٹ اورسپر ہائی وے آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری اوردیگرتجارتی وصنعتی تنظمیں بھی برابر کی شریک ہیں۔

کراچی کے صنعتی وتجارتی شعبوں کے مسائل کا حل کبھی بھی ان صنعتی وتجارتی تنظیموں کے عہدیداروں کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ فیڈریشن ہویا کراچی چیمبر‘ یا پھر دیگر صنعتی وتجارتی تنظیموں کے منتخب عہدیدار ‘ہمیشہ ان کی ترجیحات موجودہ حکمرانوں اورصوبائی افسران کے اعزاز میں تقریبات کے انعقاد اورفوٹو سیشن تک محدود رہی ہیں۔ تاجروں اورصنعتکاروں کی نمائندگی کے دعویدار تمام لیڈرز کی ہمیشہ سے ایک روایت رہی ہے کہ یہ ایسوسی ایشنز اور اپنے دفاتر میں ہرجانے والے حکمران اور صوبائی افسران کے ساتھ بنی تصاویر ہٹا کرنئے آنے والے حکمرانوں وافسران کے ساتھ فوٹو سیشن کرانے کے بعد ان کی تصاویر آویزاں کرکے اپنے ذاتی مفاد حاصل کرتے ہیں۔

صنعتکار وتاجر نمائندوں کی دوہری ودوغلی پالیسیاں بھی صنعتی وتجارتی شعبے کے مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ صنعتی شعبوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان ہو یا قلت آب‘ توانائی کا بحران ہو یا دیگر مسائل‘ بزنس کمیونٹی کے لیڈروں کی جانب سے کبھی بھی ان مسائل کے حل کیلئے نہ تو کوئی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ ا حتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔

کراچی کے صنعتی علاقوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کی ذمہ دار جہاں وفاقی وصوبائی حکومتیں ہیں وہاں صنعتی وتجارتی شعبوں کے نمائندے بھی برابر کے شریک ہیں۔ بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کی تمام سرگرمیاں ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد تک محدود رہی ہیں۔ توانائی بحران اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث گزشتہ سال برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ برآمدات میں کمی کا سبب پیداواری عمل کا متاثر ہونا ہے۔

پوری یونین کی جانب سے تجارتی مراعاتی اسکیم (جی ایس پی پلس) ملنے کے باوجود مالی سال 2013-14 میں برآمدات25ارب 11کروڑ ڈالرز تک پہنچنے کے بعد تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ برآمدات کی ماہانہ اوسط 2ارب ڈالرز سے بھی نیچے آگئی ہے۔ جولائی 2015 کے دوران برآمدات میں 17فیصد کی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برآمدات کو فروغ دینے کیلئے حکومتی اقدامات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اوریہ برآمدی شعبے کی بدترین کارکردگی ہے۔

دوسری جانب حکومت برآمدات کو فروغ دینے کے دعوے کررہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حکومت کی مجوزہ ٹریڈ پالیسی کے تحت تین سال میں برآمدات 50ارب ڈالرز تک پہنچانے کے اعلانات کئے جارہے ہیں اور برآمدات بڑھانے کیلئے کئی ممالک سے ترجیحی اور آزاد تجارتی معاہدوں کیلئے مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بارہا یہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ آزاد تجارتی معاہدوں سے پاکستانی تجارت کونقصان پہنچنے کا تاثر غلط ہے لیکن زمینی حقائق حکومتی دعو?ں کے برعکس ہیں۔

ہرگزرتے ماہ کے ساتھ پاکستانی برآمدات کا گراف نیچے کی جانب جارہا ہے۔ پاکستان بیورو شماریات کے مطابق جون 2015کے مقابلے میں جولائی 2015کے دوران برآمدات میں کمی اوردرآمدات میں اضافے کے باعث تجارتی خسارہ بڑھ گیا ہے۔صنعتی شعبوں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث پیداواری عمل شدید متاثر ہورہا ہے۔ برآمدات میں کمی سے تجارتی خسارہ تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔

صنعتی پیداواری عمل میں سست روی اورملکی برآمدات میں کمی حکمرانوں وصنعتی نمائندوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک کے معاشی حب کے صنعتی زونز کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بغیر برآمدات میں اضافے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔ برآمدات کا فروغ بیرون ممالک سے آزادانہ تجارتی معاہدے کرنے سے نہیں بلکہ صنعتی پیداوار میں اضافے سے ممکن ہے۔ حکومتی اور صنعتی ایسوسی ایشنز زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے صنعت دوست پالیسی اپنائیں بصورت دیگر معاشی شعبے کی ترقی اوربرآمدات کافروغ ممکن نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sanati O Muashi Hub is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 August 2015 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.