ریکارڈ ترقی کی گونج میں بڑھتی ہوئی مہنگائی

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دو ماہ کے لئے جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں واضح کیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مالی سال کے دوران بڑھتی ہوئی آمدنی کے موجودہ رجحانات، برآمدات میں اضافے اور نجی شعبہ میں بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافے کی توقع ہے

جمعرات 1 جون 2017

Record Taraqi Ki Gonj Main Bharti Hui Mehengai
احمد جمال نظامی:
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دو ماہ کے لئے جاری کردہ مانیٹری پالیسی میں واضح کیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مالی سال کے دوران بڑھتی ہوئی آمدنی کے موجودہ رجحانات، برآمدات میں اضافے اور نجی شعبہ میں بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافے کی توقع ہے۔

اس کے ساتھ ہی سٹیٹ بینک چونکہ ایک سرکاری ادارہ بھی ہے اس نے اپنے دفاع میں اس مہنگائی کے اپنے ہدف کے اندر ہی رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی میں مزید کہا ہے کہ سی پیک سے سرمایہ کاری تیز ہو گی۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ گوادر بندرگاہ، سی پیک منصوبوں اور ون بیلٹ ون روڈ کی بدولت وطن عزیز میں سرمایہ کاری کے وسیع تر رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزید اضافہ متوقع ہے لیکن پھر بھی جب مہنگائی کی شرح میں اضافہ جاری ہے تو اس سے غربت اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت نے سال 2018ء کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پاک سال قرار دے رکھا ہے۔ اس ضمن میں متعدد دعوے اور اعلانات بھی سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ماہ رمضان کے دوران صنعتوں کے لئے آٹھ گھنٹوں کی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کیا گیا ہے۔جس طرح آٹھ گھنٹوں کے لئے صنعتوں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کیا گیا ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ ایک شفٹ پر کام کرنے والے مزدور بیروزگاری کا شکار ہو ں گے ۔

تاہم بجلی کی ترسیل کیلئے پہلی مرتبہ این ٹی ڈی سی مختلف شہروں میں ٹرانسمشن سسٹم کی اپ گریڈیشن کے لئے متحرک نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرک سپلائی کمپنیز بھی اپنے ضابطہ اخلاق کے تحت اپ گریڈیشن کے لئے کام کر رہی ہیں۔ ملک میں گوادر بندرگاہ اور سی پیک معاہدوں پر کام کی ترجیحات کے باوجود حکومت کی طرف سے ابھی مہنگائی کے خاتمے کا کوئی ایجنڈا نظر نہیں آتا۔

اس کی واضح مثال قومی اقتصادی کونسل کا ہونے والا اجلاس ہے جس میں وزیراعظم نوازشریف کی زیر صدارت ریکارڈ ترقیاتی بجٹ منظور کرنے، صوبوں کے حصے میں تین گنا اضافہ کرنے اور بجلی سستی کرنے کا ایجنڈا طے کیا گیا۔ اس اجلاس میں آئندہ مالی سال کے لئے 2ہزار ایک سو 13ارب کا ترقیاتی بجٹ، وفاق کے لئے 10کھرب ایک ارب، صوبوں کے لئے 11کھرب 12ارب منظور کئے گئے ہیں۔

اس میں کہیں بھی غریب آدمی کیلئے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ آئندہ مالی سال کے لئے وفاقی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کا بھی مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس ضمن میں جگہ جگہ مطالبات ،چارٹر آف ڈیمانڈ اور تجاویز کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کے دوران مزدوروں نے مطالبہ کیا کہ کم از کم ماہانہ اجرت 20ہزار روپیہ مقرر کی جائے۔

اس پر حکومت کس حد تک عملدرآمد کرتی ہے اور آئندہ تمام سرکاری و نجی ادارے کس حد تک اس کی پابندی کی زحمت گوارا کرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل کام نہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے مسائل میں مسلسل اضافہ روز اول سے ہی پریشان کن رہاہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے گردوں کی غیرقانونی خریدوفروخت کے کاروبارکے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاق سمیت چاروں صوبوں اور کشمیر و گلگت بلتستان کی حکومتوں سے جواب طلب کیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب کے کئی دیہاتوں میں لوگ ایک گردے پر زندہ ہیں۔ اس سے مہنگائی کے اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی ہمارے ہاں ہی نہیں کئی دوسرے ممالک جیسے چین میں بھی مہنگائی کا عنصر موجود ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے گزشتہ پانچ برسوں میں چین میں غریب آبادی کی تعداد 8کروڑ 20لاکھ سے کم ہو کر 4کروڑ رہ گئی ہے۔

چین کی حکومت کا ہدف ہے کہ 2020ء تک چین میں غربت کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اس ہدف کی تکمیل کے لئے چینی حکومت نے غریبوں کیلئے امداد فراہم کرنے کی ٹھوس حکمت عملی پیش کی ہے۔جو ملک کے کل 1لاکھ 28ہزار دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی چین کی اس نمایاں کاوش کی تعریف کرتے ہوئے اسے دنیا بھر کے تمام ممالک کے لئے اہم قرار دیا ہے۔ ورلڈبینک کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں کل 70کروڑ افراد غریب آبادی کا حصہ ہیں۔

پاکستان کا شمار بھی ترقی پذیر ممالک کی صفوں میں ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں غربت کا مسئلہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک مسلسل بڑھ رہا ہے جس کے باعث کئی طرح کے مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ جبکہ بیروزگاری کا مسئلہ معاشی و اقتصادی حلقوں کی طرف سے ایک الگ موضوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں غریب عوام اپنے آپ کو گزشتہ ایک دہائی سے جس قدر بے یارومددگار تصور کر رہی ہے اس کی مثال شاید ماضی کے سالوں میں نہیں ملتی۔

مالی سال 2007-8ء کے دوران ہمارے ملک میں غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 17.2فیصدتھی جو وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے قومی اسمبلی میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق اب 29.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جس کے اصل اعدادوشمار کا اندازہ تو مردم شماری کی حتمی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کیا جا سکے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ تعداد جو غربت کی لکیر تلے اپنی زندگی بسر کر رہی ہے ساڑھے 5کروڑ افراد پر مشتمل ہو سکتی ہے۔

جس سے اس آبادی کیلئے بنیادی ضروریات زندگی کے فقدان کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
1970ء اور 1980ء کے عشروں میں وطن عزیز میں غربت میں کمی کے سیاسی دعوے سامنے آئے مگر 1990ء کی دہائی میں وفاقی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور کرپشن کے بڑھتے ہوئے کلچر کے نتیجہ میں غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوا اور یہ اضافہ اب تک جاری ہے۔ روزگار کے مواقع کم و بیش دو عشروں سے انتہائی تنزلی کا شکار ہیں۔

سرکاری ملازمتوں کے لئے تو ایسے لگتا ہے جیسے عام آدمی پر اس کے دروازے بند ہو چکے ہیں اور ان کی بندربانٹ محض کوئی بھی حکومتی جماعت اپنے ارکان اسمبلی کو کوٹہ مختص کر کے کرتی ہے۔ اس صورت حال میں اکثر دور دراز علاقوں سے بڑے شہروں میں نقل مکانی بڑھ رہی ہے۔جبکہ بے روزگار نوجوانوں کے علاوہ ان کے آبائی علاقوں میں بیٹھے اہلخانہ خود خط غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

ان نامساعد حالات میں مایوسی کی شرح میں بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے اور وطن عزیز میں خودکشی کرنے کی شرح میں گزشتہ ایک سال کے دوران 7فیصد خطرناک کن ریکارڈ اضافہ سامنے آیا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک بھر میں ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کے دائرہ کار کو بڑھائے جہاں نوجوان نسل کو ہنرمند بنا کر انہیں ملکی معیشت کی ترقی میں شامل کرنے سے غربت میں یقینی طور پر کمی واقع ہو گی۔ جبکہ شعبہ زراعت پر بھی حقیقی اور عملی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے سیاسی زاویے زاویوں کی بجائے عمومی مراعات پر مبنی پالیسیز کا اعلان کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Record Taraqi Ki Gonj Main Bharti Hui Mehengai is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 June 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.