پاکستانی مرکزی بینک اور عالمی اداروں کی رپورٹس

گذشتہ دنوں پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنی تازہ دو ماہی رپورٹ جاری کی اور اس سے کچھ دن قبل سالانہ جائزہ بھی پیش کیا گیا تھا جس میں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا گیاہے۔اسکے علاوہ ہمارے ارباب اختیاربھی مختلف اداروں کی رپورٹس کے حوالے سے پاکستان کی معیشت کو ایک مثالی بناکر پیش کرر ہے اور اس کیلئے وہ سب سے بڑی مثال پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی دیتے ہیں

پیر 5 دسمبر 2016

Pakistani Markazi Bank
شیخ منظر عالم:
گذشتہ دنوں پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنی تازہ دو ماہی رپورٹ جاری کی اور اس سے کچھ دن قبل سالانہ جائزہ بھی پیش کیا گیا تھا جس میں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا گیاہے۔اسکے علاوہ ہمارے ارباب اختیاربھی مختلف اداروں کی رپورٹس کے حوالے سے پاکستان کی معیشت کو ایک مثالی بناکر پیش کرر ہے اور اس کیلئے وہ سب سے بڑی مثال پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی دیتے ہیں جو اعدادوشمار کے مطابق 1997-98میں 1200پوائنٹ کے قریب تھی۔

جو اب ماشاء اللہ 42000-43000کی تاریخی بلندی کو چھو چکی ہے لیکن اسکے باوجودزمینی حقائق کے مطابق پاکستان کی غیر پیداواری اور صنعت مخالف پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی آبادی کا صرف ایک فیصد طبقہ خوشحال اور اعلیٰ معیار زندگی گذارتا ہوا دیکھا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے برعکس اسی تیزی سے قومی اثاثے اور قومی وسائل جوقوم کا معیارزندگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ اغیار کے سامنے گروی رکھے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے آج قوم کا ہر فرد ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔

معیشت میں بہتری کے دعوؤں اور پاکستانیوں پرقرضوں کے بوجھ کے تقابلی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ 2008میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آغاز پر ہر پاکستانی 37170روپے کا مقروض تھا جو2013میں ان کی حکومت کے اختتام تک59فیصد اضافہ کے بعد 90772روپے کا مقروض ہوگیا۔ مگر اب موجودہ حکومت میں 2008کے مقابلے میں ہر پاکستانی پر قرضے کا بوجھ63فیصد اضافے کے بعد 101338روپے ہوچکا ہے۔

اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے ہوئے وسائل کے باعث ایک ایسی معاشرتی نفرت جنم لے رہی ہے جس کا سدباب نہ کیا گیا تو پھر یہ کسی سے کنٹرول نہیں ہوسکے گے افراط زر مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ مالیاتی خسارہ بھی بتدریج بڑھ رہا ہے ،اسٹاک مارکیٹس میں سٹے چل رہے ہیں ، صنعتوں میں لگانے والا 80فیصد سے زائد سرمایہ رئیل اسٹیٹ کی سٹہ بازی کی نذر ہوچکا ہے اور ٹیکس چوری حد سے بڑھ چکی ہے۔

اسکے باوجود پاکستان کے مرکزی بینک نے اپنی تازہ دو ماہی رپورٹ میں معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہارکیا ہے اور اگلے دو ماہ کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ملک کیلئے اچھا شگون قرار دیا ہے ۔جبکہ مہنگائی کی شرح ، کرنسی کی گردش، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور دیگر اعشاریوں پر جو رپورٹ جاری کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے سوائے افسوس کے اظہار کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

اگر معاشی اہداف پورے ہونے میں کوئی صداقت ہوتی تو آج پاکستان کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں نہ ہوتی۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا اسٹاک ایکسچینج کے 43000 پوائنٹ پر آنے کی وجہ سے پاکستان کے عام آدمی کا معیار زندگی کس قدر بلند ہوا ہے ؟ کیا ہمارے ان مالیاتی اداروں کے افلاطونوں کی عرق ریزی کے بعد اس ملک کی برآ مدات میں اضافہ ہوا ہے ؟ کیا مرکزی بینک کے ان خوشگوار اعدادوشمار کے بعد ہمارے ملک سے بیروزگاری کا طوفان ختم یا کم ہوا ؟ کیا ہمارے ملک میں تعلیم اورصحت جو ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے اسکے حصول کیلئے کوئی کوشش ہوئی ؟بلکہ ہم یورپ یا امریکہ تو کیا اس شعبے میں بنگلہ دیش ، سری لنکا یا نیپال کا مقابلہ بھی کرسکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اگران تمام باتوں کا جواب نہیں اور یقیناً نہیں ہے تو ان حقائق کے تناظر میں مرکزی بینک کی تمام رپورٹس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتااور نہ یہ رپورٹس پاکستان کی حقیقی معیشت اور حقیقی ترقی کے معیار کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہیں تو پھر ان رپورٹس کو جاری کرنے اور قوم کو سبز باغ دکھانے کا کیا فائدہ ہے۔ کیونکہ اگر صرف موجودہ حکومت کی ہی بات کریں توپچھلے تین سالوں سے پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے اسی وجہ سے مالیاتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے۔

مثلاًجولائی سے اکتوبر2016 کے صرف تین ماہ میں برآمدات 6432 ملین ڈالرز اور درآمدات15751ملین ڈالرز رہیں جو پچھلے سال کی اسی مدت میں بالترتیب 6865اور 14504 ملین ڈالرز رہی تھیں ۔یعنی برآمدات میں 6.31فیصد کمی اور درآمدات میں 8.6فیصد اضافہ رہا جس کی وجہ سے مالیاتی خسارے میں 21.99فیصد اضافہ ہوا۔اسی طرح مرکزی بینک دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان کی شرح نمو جو3.7فیصد تھی وہ بڑھ کر 4.7فیصد ہوگئی ہے ۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی شرح نمو جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک سے کم ہے جبکہ بیروزگاری کے تناسب سے پاکستان کی شرح نمو 6.5فیصد ہونی چاہیے تھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی2015کی کرپٹ ممالک کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق168ممالک میں پاکستان کا 117واں نمبر ہے یعنی دنیا کے116ممالک میں کرپشن پاکستان سے کم ہے جبکہ اسی فہرست میں بھوٹان کا 27واں نمبر، سری لنکا کا 83واں نمبر اور بھارت کا76واں نمبر ہے۔

اسی طرح عالمی مالیاتی فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں پاکستان کی اوسط شرح نمو 3.9فیصد سالانہ رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت کی اوسط شرح نمو گذشتہ دس سالوں میں پاکستان سے دگنی شرح نمو یعنی 7.5 فیصد سالانہ رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کو پائیدار اور مضبوط معاشی ترقی کے نتائج کے حصول کیلئے اقتصادی بدحالی، طرز حکمرانی اور سیکیورٹی کی بری صورتحال کا سامنا ہے اور پورے ملک میں سرحدی علاقوں اور سیکیورٹی کے مسائل پاکستان میں زندگی کے تمام پہلوؤں کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistani Markazi Bank is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 December 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.