پاکستان کے حالات

اگر آج کل پاکستان کے حالات اور واقعات پر نظر ڈالی جائے تو انتہائی ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں فی لوقت ملک میں ایسے 13کروڑ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ان13 کروڑ لوگوں ہیں کی آمدنی 2 ڈالر یعنی 200 روپے سے بھی کم ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بہتر معیشت کو22 بین الاقوامی اداروں نے سراہا۔ مگر بات یہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کو کیسے اطمینان بخش کہا سکتا ہے

منگل 1 نومبر 2016

Pakistan Ke Halat
اگر آج کل پاکستان کے حالات اور واقعات پر نظر ڈالی جائے تو انتہائی ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں فی لوقت ملک میں ایسے 13کروڑ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ان13 کروڑ لوگوں ہیں کی آمدنی 2 ڈالر یعنی 200 روپے سے بھی کم ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بہتر معیشت کو22 بین الاقوامی اداروں نے سراہا۔ مگر بات یہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کو کیسے اطمینان بخش کہا سکتا ہے جہاں پرتھراور جنوبی پنجاب میں لوگ بھوک افلاس سے مر رہے ہوں یا خود کشی کر رہے ہوں۔

اس وقت 200 ممالک کی فہرست میرے سامنے ہے اس میں 130 ایسے ممالک ہیں جو1947 یا اسکے بعد دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے ہیں۔ مگر بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان 130 ممالک میں پاکستان اقتصادی اور سماجی اشاروں کے لحاظ سے سب سے کمزور ملک ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ پاکستان کے پاس جتنے قدرتی و سائل ہیں وہ بہت کم ممالک کے پاس ہیں۔انڈو نیشیاء، اسرائیل، ساوٴتھ کوریا، ملائیشیاء تقریباً ایک ہی وقت میں دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے۔

مگر انکی اچھی اور اہل لیڈر شپ کی وجہ سے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم کد ھر ہیں۔اس وقت انڈو نیشیاء کی فی کس آمدنی 12ہزار ڈالر، اسرائیل کی فی کس آمدنی 34 ہزار ڈالر، ساوٴتھ کوریا کی 35 ہزار ڈالر اور ملائشیاء کی 26 ہزار ڈالر جبکہ بد قسمتی پاکستان کی فی کس آمدنی ساڑھے تین ہزار ڈالر ہے، اور وہ بھی نواز شریف اور زرداری کے پیسے ملا کر اور غریبوں پر تقسیم کر کے فی کس آمدنی نکالی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی تو ہم بات نہیں کرتے، جنوبی ایشیاء جہاں پر سب سے غریب رہتے ہیں یہاں پر بھی پاکستان کے اقتصادی اور سماجی اشارے اس علاقے میں موجود سارے ممالک سے نیچے ہیں۔ 200 ممالک کی فہرست میں جنوبی ایشیاء کے 6 ممالک انسانی ترقی کی فہرست میں سری لنکا 73 ویں پو زیشن پر( متوقع عمریں 75 سال) مالدیپ 104 ویں نمبر پر (متوقع عمریں77 سال)، بھارت 130 ویں نمبر پر( متوقع اوسط عمر69 سال)، بھوٹان 132 ویں نمبر پر ( متوقع عمر 70 سال)، بنگلہ دیش 142 ویں نمبر پر ( متوقع عمر72 سال) اور سب سے آخر میں پاکستان ویں نمبر پر , جہاں پر اوسط متوقع عمر 66 سال ہے۔

پاکستان کا کل رقبہ تقریباً 8 لاکھ مر بع کلومیٹر ہے مگر اسکے باوجود فی کس آمدنی 3500 ڈالرہے، جبکہ سنگا پور کا کل رقبہ 696 مربع کلومیٹر ہے مگر وہاں پر فی کس آمدنی 85 ہزار ڈالر ہے۔ اسرائیل کا کل رقبہ 20 ہزار مر بع کلومیٹر مگر فی کس آمدنی 36 ہزار ڈالر جبکہ لگزمبرگ کی فی کس آمدنی ایک لاکھ دالر ہے۔پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں اور اس غریب ملک کے غریبوں کو مزید قرض دار کر رہے ہیں۔

2008 میں پاکستان کا فی کس قرضہ 35 ہزار رو پے اور 2015 میں فی کس قرضہ ایک لاکھ اور 20 ہزار روپے تک پہنچ گیا اور لوگوں کی حالت ایسے کے ویسے ہے ۔ پاکستان کا کل خارجہ قرضہ 80 ارب ڈاالر اور ملکی مالیاتی اداروں سے جو قرضہ لیا گیا ہے وہ 16 ہزار ارب روپے ہے جو ملک کے کل آمدن کا 34 فی صد ہے۔ بھارت کا قرضہ ملک کے مجموعی آمدن کا 20 فی صد، بنگلہ دیش کا 19 فی صد اور ایران کا قرضہ ملک کے کل آمدن کا 4 فیصد ہے۔

انہوں نے قرضے لیکر اْس پر ترقی کے کام کئے اور ہمارے حکمرانوں نے جو قرضہ لیا وہ انکے بیرون ممالک اکاوٴنٹس میں چلے گئے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں سالانہ 40 لاکھ نوجوان نو کریوں کے قابل ہوجاتے ہیں مگر بد قسمتی سے موجودہ حکومت کے پاس انکو کھپانے اور انکو نو کری دلانے کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔ جسکے نتیجے میں یہی پڑھے لکھے نوجوان دہشت گردی ، انتہا پسندی اور دوسرے ملک دشمن سر گر میوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔

آج کل یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی آبادی کی شرح پیدائش 0 فی صد ہے۔ اگر ہماری خا رجہ پالیسی اچھی ہو تو ان نوجوانوں کو بیرون ممالک بھیج کر اربوں روپوں کا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے مگر بد قسمتی سے ہماری ناکام خارجہ پا لیسی کی وجہ سے ہم اس مقصد حا صل کرنے میں ناکام ہیں۔حکمرانوں کی غلط پالیسوں کی وجہ سے سرمایہ دار اور جا گیر دار اپنے اثاثے بیچ کر دوبئی سعودی عرب یا ملائیشیاء منتقل کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گر دی اور انتہاپسندی کے علاوہ ہماری حکومتوں کی کرپشن ، اقربا پر وری اور باہر ملکوں میں پیسے منتقل کرنا سب سے اہم مسائل ہیں۔ وطن عزیز میں روزانہ 12 ارب روپے اور سالانہ 4380 ارب روپے کرپشن اور بد عنوانی کے نذر ہو رہے ہیں۔ ملکی وسائل کو لوٹ لوٹ دوسرے ممالک منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستانی سیاست دانوں سول اور ملٹری افسر شاہی کے تقریباً 3400 ارب ڈالر بیرون ملک پڑے ہوئے ہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 19 کروڑ عو ام ذلالت اور کمپرسی کی زندگی غزارنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 10 ہزار لوگوں کے لئے 6 بیڈ، جبکہ نیپال میں 10 ہزارلوگوں کے حساب سے 60 بیڈ اور مالدیپ میں50بیڈ دستیاب ہیں۔ پا کستان میں نر سوں کی تعداد آبادی کے حساب سے بھی بالکل کم ہے۔ پاکستان میں 10 ہزار مریضوں کے لئے نر سوں کی تعداد 5 ہے ، جبکہ بھارت میں یہ شرح 10، سری لنکا میں 20 اور مالدیپ میں 40 ہے۔


پاکستان میں آبادی کے حساب سے ڈاکٹروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں 1500 مریضوں لئے ایک ڈاکٹر جبکہ کیوبا میں170 مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر دستیاب ہیں۔ پاکستان میں 50 فی صد لوگوں کے پاس ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں70 فی صد لوگوں کے لئے نکاس آب کا کوئی نظام نہیں۔پاکستان میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات 120 فی ہزار ہے جبکہ سری لنکا یہی ریشو 13 فی ہزار ہے۔

پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 2 فی صد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے جبکہ ملائیشیاء اور بھارت بالترتیب8 اور 6 فی صد خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان میں 50 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اگر ہم تباہی اور بر بادی پر غور کر لیں توان میں سیاست دانوں کے ساتھ کچھ مو قع پرست جنرل بھی شامل تھے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کو ملک اور پاکستان کے مفاد میں تو سیع لینی چاہئے۔میں پاکستان کے سیاست دانوں سے استدعا کرتا ہوں کہ ملک میں امن و آمان قابو انکے بس کی بات نہیں لہذاء اپنی زندگی اور ملک اور قوم کی بقا کے لئے راحیل شریف کے تو سیع ملازمت کے راستے میں رکاوٹ نہ نہیں ، بلکہ سب متفقہ قرار داد کے ذریعے راحیل شریف کی مدت ملا زمت میں تو سیع کے لئے کو شاں ہونا چائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan Ke Halat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 November 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.