معاشی سفر کے تضادات

بنگلہ دیش جو ہم ہی سے الگ ہوا تھا 1972 میں اسکی جی ڈی پی کی شرح نمومنفی13.97فیصدتھی مگر آج اسکی شرح نمومثبت7.1فیصدہے۔1972میں بھارت کی شرح نمو 1.643تھی مگر آج اسکی شرح نمو 8.2فیصد ہے جبکہ آج پاکستان کی شرح نمو 4.7فیصد ہے

بدھ 3 مئی 2017

Muashi Safar K Tazadat
بنگلہ دیش جو ہم ہی سے الگ ہوا تھا 1972 میں اسکی جی ڈی پی کی شرح نمومنفی13.97فیصدتھی مگر آج اسکی شرح نمومثبت7.1فیصدہے۔1972میں بھارت کی شرح نمو 1.643تھی مگر آج اسکی شرح نمو 8.2فیصد ہے جبکہ آج پاکستان کی شرح نمو 4.7فیصد ہے۔اسی طرح 1979تک چین کی معاشی حالت بھی تباہی کا شکار تھی مگر سمت کے تعین اور اس سمت پرنیک نیتی اورجافشانی سے عمل کرنے کے سبب آج چین دنیا کی سب سے مضبوط معاشی طاقت بن چکا ہے۔

اسکے علاوہ 1984 تک تھائی لینڈ میں بھی معاشی حالات کچھ زیادہ بہتر نہ تھے اورتھائی بھات مسلسل گراوٹ کا شکار تھا مگر اب تھائی لینڈ404.82ارب ڈالرز کی جی ڈی پی کے ساتھ انڈونیشیاء کے بعدساوٴتھ ایسٹ ایشیاء کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔مگر پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب گامزن ہیں جبکہ ہمارے ارباب اختیار پاکستان کو دو سالوں میں ملک کو دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں اور بچت کی شرح کو بیس فیصد سے زیادہ کرنے کے دعوے کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

مگر حقیقتاً قرض زدہ، بھیک کے سنہرے ورق میں لپٹی ہوئی اور مختلف عطیوں سے معطر معیشت کو ہم خود انحصاری کے مصنوعی لبادے میں پیش کررہے ہیں اور نادیدہ زنجیروں میں لپٹی معیشت کو آزاد وخودمختار بنانے کے نعرے لگارہے ہیں جبکہ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے ، نئے پیداواری شعبوں کو وسعت دینے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے بجائے ہماری مختلف حکومتیں اندرونی وبیرونی قرضوں کے حصول ،قومی اثاثوں کو بیچنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات پر انحصار کرکے ہی اپنے منصوبے بناتی رہی ہیں بلکہ اب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ اس وقت ایئر پورٹس، موٹر ویز اور سرکاری عمارات کو گروی رکھ کر قرضوں کے بوجھ کو بڑھایا جارہا ہے ۔

قیام پاکستان سے پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا نہیں تھا لیکن گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں پاکستان زیادہ مقروض ہوا ہے۔ 1990میں پاکستان پر بیرونی قرضہ 20.9ارب ڈالرز تھا جو اگلے دس سالوں میں بڑھ کر 2000میں 38.9ارب ڈالرز تک جاپہنچا۔
اسکے بعد اگلے دس سالوں میں بیرونی قرضے میں کمی بیشی ہوتی رہی جیسے2001میں 38ارب ڈالرز ہوا اور پھر 2002میں 31.5ارب ڈالرز ہوا۔

پھر 2010میں پاکستان پر بیرونی قرضہ 53.62 ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچا جس کے بعد بتدریج اضافے کا رجحان اب تک جاری ہے 2011میں 57.21 ارب ڈالرز،2012میں 61.83ارب ڈالرز، 2013 میں 56.19 ارب ڈالرز اور اب مرکزی بینک کی مارچ 2017کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ70.65ارب ڈالرز ہوچکا ہے جوکہ پاکستانی روپے کیمطابق 7403.6ارب روپے بنتا ہے جس میں بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ365ارب روپے اور قرضوں پر سود کی رقم کی ادائیگی شامل نہیں ہیں۔

اسکے علاوہ پاکستان پر اندرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ بھی بڑھتا ہوا 14192.6ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یعنی کل ملا کر پاکستان پر اندرونی وبیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ 23143ارب روپے یعنی 220ارب ڈالرز سے زائد ہے جوکہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 80فیصد سے زائد بنتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گذشتہ چار سالوں سے موجودہ حکومت ملک کی معیشت کو ایک مستحکم معیشت کے سرٹیفیکٹ مختلف مالیاتی اداروں سے لے رہی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے مگر اعدادوشمار کے ہیر پھیر سے معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی کیونکہ 2005میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 12.58ارب ڈالرز تھے جبکہ اس وقت ہم پر صرف بیرونی قرضہ33.92 ارب ڈالرز تھا مگر اب جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر21.74 ارب ڈالرز کی سطح پر تو پہنچ گئے ہیں مگر بیرونی قرضہ بھی اس تناسب سے 70ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا ہے۔

اسکے ساتھ برآمدات میں بھی پانچ ارب ڈالرز کی کمی آچکی ہے اور درآمدات میں اضافے کے ساتھ مالیاتی خسارے بھی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جیسا کہ 2000-1 کے مالی سال میں ہمارا مالیاتی خسارہ 1.52 ارب ڈالرز تھا جو کہ 2015-16میں بڑھ کر 23.96 ارب ڈالرز تک پہنچ گیاتھا اور اب مرکزی بینک کے مطابق جولائی2016سے مارچ2017کے نو ماہ ہماری برآمدات 15.12 ارب ڈالرز اور درآمدات 38.5 ارب ڈالرز ہونے کی وجہ سے مالیاتی خسارہ 23.38ارب ڈالرز ہوچکا ہے اس لئے میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ برآمدات میں کمی، درآمدات اور مالیاتی خسارے میں اضافے اور اندرونی و بیرونی قرضوں کے بڑھنے کے باوجود ملکی معیشت مستحکم و مضبوط کیسے قرار دی جاسکتی ہے ؟ کیا صرف بیرونی مالیاتی اداروں کے مستحسن سرٹیفیکیٹس اور قرضوں و بھیک کی آمد سے زرمبادلہ میں مصنوعی اضافے کو کامیابی سمجھا جاسکتا ہے؟ کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر2016میں تاریخی بلندی یعنی 24.025ارب ڈالرز تک پہنچ گئے تھے مگرحکومت کی مصنوعی پالیسیوں اور مسلسل گرتی ہوئی برآمدات و مسلسل بڑھتی ہوئی درآمدات کے سبب سات اپریل 2017کو زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.28ارب روپے کی کمی ہوچکی ہے۔

حکومت کی ان ہی مصنوعی اور زمینی حقائق سے غیر مطابقت رکھنے والی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے گذشتہ دنوں سترہ اپریل2017 کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جس کا کام ہی پاکستان کی برآمدات بڑھاناہے کے سربراہ اور ممتاز صنعتکار محترم ایس ایم منیر صاحب نے اپنے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم پاکستان محترم میاں محمد نواز شریف صاحب کو پیش کرکے اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں کیونکہ انکے مطابق وزیر اعظم محترم میاں نواز شریف اور وزیر تجارت خر م دستگیر خان کے چاہنے کے باوجود بیوروکریسی تاجروں وصنعتکاروں کا ساتھ نہیں دے رہی جس کی وجہ سے پاکستان کے برآمدات کنندگان کے 300ارب روپے کے ریفنڈ اب تک واپس نہ ہوسکے ہیں اور ہماری بڑی مثبت تجاویز پر مرتب فائلوں کو کامرس منسٹری نے گھمادیا ہے جبکہ انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس کے اہلکار تاجروں وصنعتکاروں کو ہراساں کررہے ہیں اس لئے ان حالات میں جب میں تاجروں وصنعتکاروں کے مفاد میں کوئی کام کرنے سے قاصر ہوں ا س لئے میرا اس عہدے پر رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔


مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک ایڈہاک ازم اور مصنوعی اعدادوشمار کے سہارے معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکتا اور اس کیلئے سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ٹیم ورک کی ہوتی ہے جو عملاً اور نیتاً مخلص ہو مگر پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ اسکے معاشی، اقتصادی ، پلاننگ اور منصوبہ ساز اداروں میں بیٹھے افراد گذشتہ پچیس سالوں سے اپنے بیرونی آقاوٴں اور انکے مقاصد کوپورا کرنے میں مگن ہیں اور حکومتیں اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ تمام افسران شطرنج کے کھیل کی طرح کبھی ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر براجمان ہوکر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کی عملی صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنی برآمدات اور پیداواری شعبے میں ترقی یافتہ ممالک تو کیا اپنے خطے میں موجود ممالک جو رقبے ،آبادی اور قدرتی وسائل میں بھی ہم سے بہت کم ہیں وہ بھی ہم سے کہیں زیادہ ترقی کرچکے ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش کی برآمدات تقریباً38ارب ڈالرز یعنی پاکستان سے تقریباً دگنی ہیں اور درآمدات تقریباً40ارب ڈالرز ہیں یعنی مالیاتی خسارہ صرف تقریباً 2ارب ڈالرز ہے جبکہ بنگلہ دیش پر بیرونی قرضے کا بوجھ36ارب ڈالرز ہے جوکہ اسکی جی ڈی پی کا صرف 14فیصد بنتا ہے۔

اسی طرح تھائی لینڈ کی برآمدات215ارب ڈالرزاور درآمدات 203ارب ڈالرز ہیں یعنی مالیاتی خسارہ بالکل نہیں ہے جبکہ تھائی لینڈ پر بیرونی قرضوں کا بوجھ159ارب ڈالرز ہے جو اسکی جی ڈی پی کا 39فیصد بنتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ملکی زمینی حقائق اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی معاشی ترقی کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے کیونکہ اگر ہم اخلاص اور نیک نیتی سے مثبت معاشی سمت کا تعین کرکے قدم بڑھائیں تو ہم ان ممالک سے کہیں آگے نکل سکتے ہیں کیونکہ نہ ہمارے ملک میں وسائل کی کمی ہے، نہ افرادی قو ت کی اور نہ ہی قابلیت کی۔ اس طرح ہم قرضوں و بھیک کی بیساکھی کو توڑ ہم اپنے ہی وسائل سے اپنے قدموں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Muashi Safar K Tazadat is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 May 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.