مقامی صنعت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سامنا

تیسری دنیا مادی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مالا دنیا کی آبادی کا تقریباً 75فیصد ہے مگر سہولتوں کا اعتبار سے دنیا کے یہ خطے غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امیر غریب ملکوں کا استحصال کرتے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان امیر ملکوں کے بالا دست طبقات کے لئے خوشحالی کی نوید اور غریب عوام کے لئے موت کا پیغام ہیں

بدھ 19 اپریل 2017

Maqami Sanat Ko Muqami National Companiyoon Ka Samna
رانا زاہد اقبال:
تیسری دنیا مادی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مالا دنیا کی آبادی کا تقریباً 75فیصد ہے مگر سہولتوں کا اعتبار سے دنیا کے یہ خطے غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امیر غریب ملکوں کا استحصال کرتے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان امیر ملکوں کے بالا دست طبقات کے لئے خوشحالی کی نوید اور غریب عوام کے لئے موت کا پیغام ہیں۔

ایشیا تیسری دنیا کی غربت کی ایک بڑی اکثریت کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی 5ارب آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے اور اس میں سے ایک ارب لوگ غربت کی مطلق سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں جن کو نہ تو مناسب غذا میسر ہے، نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر ہے، نہ ہی مناسب گھر، ادویات اور تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔

(جاری ہے)

غریب ملکوں کے لوگوں کی آمدنی سامراجی ملکوں کے لوگوں کی آمدنی کا محض 6فیصد ہے۔

سامراجی ملکوں کے لوگ جو دنیا کی آبادی کا 25فیصد ہیں دنیا کی 50فیصد خوراک اور 75فیصد دوسرے ذرائع استعمال کرے ہیں۔ امیر ممالک دنیا بھر کی آمدن کا 75فیصد استعمال کرتے ہیں اور دنیا کے 1.2ارب انسان ایک ڈالر سے بھی کم آمدن میں گزارہ کرتے ہیں۔ دنیا کا 80فیصد ماحول صرف ایک ارب انسانوں کی وجہ سے خراب ہو رہا ہے کیونکہ وہ کاریں اور ڈسپوزیبل مصنوعات استعمال کرے ہیں۔

غربت، بیروزگاری، احساسِ محرومی، تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان غرض کونسا عذاب ہو گا جو ان لوگوں پر نازل نہیں ہوتا۔ ان کی قطرہ قطرہ پگھلتی زندگی ان کی حسرتوں کا مدفن بنا دیتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ان لوگوں کے اعداد و شمار تو ہیں جو ان کے مرض کی نشاندہی کے لئے کافی ہیں مگر اس کی دوا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ گورکن دنیا کی صرف 25فیصد آبادی کو زندہ رکھنے اور باقی کو زندہ درگور کر دینا چاہتے ہیں۔

کوئی جئے یا مرے ان کو تو بس منافع سے غرض ہے۔ عالمی طاقتیں ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور طاقتور افراد جب سے ریاست وجود میں آئی ہے انسانوں کی خدمات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ دنیا میں غلامی ختم ہو چکی ہے لیکن ابھی تک جدید طریقوں سے سپر پاورز نے انسانوں کو غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔ انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کو قدرتی وسائل منتقل ہو رہے ہیں اور یہی ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کا راز ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے نام پر ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل یعنی تیل اور قدرتی گیس پر قبضہ کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے اہداف کیلئے خالص سائنسی تعلیم کو ترقی پذیر ممالک میں عام نہیں ہونے دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ذہین دماغ ہی وسائل پیدا کرتا ہے، سائنس دان ہی ملک کی تقدیر سنوار سکتا ہے۔

وہ کسی بھی ترقی پزیر ملک میں خالص سائنسدان کو ہیرو کے روپ میں پیش نہیں ہونے دیتے تاکہ طالب علم اور قوم میں سائنس کا کلچر پیدا نہ ہو۔
تیسری دنیا کے حکمران طبقات ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی یلغار کے سامنے بے بس نہیں کہے جا سکتے بلکہ ان کے طبقاتی مفادات عالمی سطح پر ان سرمایہ داروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ حکمران طبقات بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے غریبوں کے استحصال میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

کچھ مفادات کے عوض یہ حکمران ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ملکوں میں ہر طرح کی چھوٹ دے دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں عوام کو لوٹیں۔ یہی صورتحال ہمارے ہاں ہے کیونکہ پاکستان ایک سامراج گزیدہ ملک تھا اور تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے پاس سامراجی نو آبادیاتی دور کا ریاستی ڈھانچہ، جاگیر دار اور اکا دکا سرمایہ دار تھے جو کہ بنیادی طور پر تاجر تھے۔

انہی حالات میں سے گزر کر دنیا کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے راستے بنا لئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آج بھی چھوٹے بڑے سٹوروں پر چلے جائیں تو انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ جبکہ ہماری لوکل انڈسٹری ابھی تک جگہ نہیں بنا سکی۔
گلوبلائزیشن اور ازاد معیشت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک نئے سامراجی نظام کی داغ بیل ڈال رہی ہیں۔

ان کمپنیوں کو زائد پیداوار کو دوسرے ملکوں میں برآمد کرنے میں ٹیکس اور دوسری مشکلات پیش آتی تھیں ان سے بچنے کے لئے ان کمپنیوں نے ایشیا اور افریقہ کا رخ کیا ان کو اپنی تجارتی چوکیاں بنایا یہاں کی لیبر بھی انہوں نے سستے داموں خریدی۔ پھر یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کے عوام کی تقدیر بدلنے کی دعویداربنی ہوئی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نیا جال لے کر کمپنیوں کی صورت میں داخل ہو رہے ہیں یہ کمپنیاں کسی ملک کے قدرتی و انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کو ترقی یافتہ ممالک میں منتقل کرتی ہیں،جسے ان ملکوں کے بڑے بڑے ادارے خرید لیتی ہیں۔

جیسے پاکستان میں پی ٹی سی ایل، مختلف بینکس، میڈیا گروپس اور دوسرے ادارے ان کمپنیوں نے خرید رکھے ہیں۔ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے اشیاء کی مانگ بڑھائی جاتی ہے۔ یہ کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ ان کے مقابلہ میں کوئی نیشنل کمپنی کامیاب نہیں ہوپاتی۔ مثلاً پاکستانی کمپنیاں ابھی تک کوئی باتھ سوپ، بیوریج، سگریٹ اور دوسری روز مرہ کے استعمال کی چیزیں ان کمپنیوں کی معیار کے مقابل تیار نہیں کر سکی ہیں۔

بظاہر پاکستان آئل کمپنی، پاکستان پیٹرولیم، پاکستان ٹوبیکو کمپنی، مکڈونلڈ، برگر کنگ، پیزا ہٹ اور دوسری کئی کمپنیاں پاکستانی معلوم ہوتی ہیں لیکن اصل میں یہ کمپنیاں بھی ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایسے ہی دواساز، کاسمیٹکس اور کیڑے مار ادویات کی بڑی کمپنیاں بھی سب ترقی یافتہ ممالک ہی کی ملکیت ہیں۔جہاں غریب ملکوں کا کھربوں روپے کا سرمایہ اپنے ہاں مقامی اور معیاری مصنوعات نہ ہونے کی وجہ سے منتقل ہو جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Maqami Sanat Ko Muqami National Companiyoon Ka Samna is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.