حکومت معیشت اور سیاست میں کشمکش

سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد حکومت اور حکومتی وزراءکے بیانات اور کارکردگی پر صنعتی تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار شروع ہو چکا ہے۔

منگل 10 اکتوبر 2017

Hakumat Maishat Our Siyasat Main Kashmakash
احمد جمال نظامی:
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد حکومت اور حکومتی وزراءکے بیانات اور کارکردگی پر صنعتی تجارتی اور زرعی حلقوں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار شروع ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں تمام حلقوں کی طرف سے بلاتفریق یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت جو اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف پر احتجاج کے حوالے سے معیشت کے خلاف سازشوں کا الزام عائد کرتی تھی اور بتاتی تھی کہ ان کے جلسے جلوس یا دھرنوں کی وجہ سے معیشت کا کیا اور کس قدر نقصان ہو رہا ہے۔

حکومت اب خود اس بارے میں سوچ بچار کرے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے ساتھ برآمدات میں کمی بھی واقع ہو رہی ہے اور حکومت و حکومتی متعلقہ اداروں کی طرف سے معاشی و اقتصادی معاملات پر کسی قسم کی توجہ نہ ہونے کے باعث صنعتوں کی بندش اور تنزلی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جبکہ سرمایہ کاری بھی تنزلی کا شکار ہے ۔

(جاری ہے)

جس کا اندازہ سٹاک ایکسچینج کی مسلسل گرتے ہوئے انڈکس سے لگایا جا سکتا ہے لیکن حکومت صرف اور صرف سابق وزیراعظم کے دفاع میں مصروف نظر آ رہی ہے جس کے نتیجہ میں معاشی و اقتصادی معاملات بے یارومددگار چل رہے ہیں اور اب اس کا واویلا تمام صنعتی اور تجارتی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

گزشتہ روز ہی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی زرمبادلہ کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں 288ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس صورت حال پر صنعتی، تجارتی اور برآمدی حلقوں کی طرف سے نہ صرف گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ وہ احتجاج کرتے ہوئے سوال بھی کر رہے ہیں کہ آخر حکومت ملک کی معیشت کے ساتھ ایسا سلوک کیوں روا رکھ رہی ہے جبکہ سابق وزیراعظم کے ساتھ وزراءکی موجودگی میں سیکورٹی اداروں اور عدلیہ پر تابڑ توڑ حملوں سے معاشی و اقتصادی حلقوں کے مطابق انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے۔

کہ جمہوریت کی بھی پرواہ نہیں کی جا رہی اور صرف اور صرف ذاتی سیاسی مفادات اور مقاصد کے لئے بے یقینی اور انارکی کی صورت حال پیدا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے جس سے سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، تاجروں، کاروباری حضرات اور برآمدکنندگان کے ساتھ غیرملکی سرمایہ کاروں کو شدید قسم کی بے چینی اور اضطراب کا سامنا ہے۔ وہ بری طرح بے یقینی کی صورت میں خوف کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی طرف سے حکومت سے مطالبہ کیا جانے لگا ہے کہ وزیراعظم، وزیرخزانہ اور دیگر معیشت سے متعلقہ وزرائ، مشیر اور ان کے ادارے اپنا کردار ادا کرنا شروع کریں۔

وگرنہ معاشی و اقتصادی طور پر موجودہ حکومت جس نے بین الاقوامی قرضہ جات میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کر رکھا ہے۔ اس صورت حال میں معیشت تباہی کے اس دہانے پر آن پہنچے گی جہاں سے غربت کی شرح میں مزید اضافے کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر جس طرح موجودہ حکومت کے اقتدار کے ابتدائی سال میں تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچ گئے تھے اس سے بھی بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس وقت یہ صورت حال بھی انتہائی تشویشناک اور تعجب انگیز ہے کہ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا نیب میں کیس شروع ہے اور معاشی و اقتصادی حلقوں کے مطابق وہ کسی طور پر بھی اپنی وزارت سے متعلقہ امور پر توجہ نہیں دے رہے جس کے باعث حالات مزید گھمبیر ہو رہے ہیں اور مسائل ہیں کہ تھمنے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ شعبہ ٹیکسٹائل سمیت تمام صنعتیں سراپا احتجاج بن چکی ہیں اور وہ تمام حلقے جو حکومت کی حمایت میں بھی تھے وہ بھی مطالبہ کرتے ہوئے حکومتی ترجیحات، پالیسیز، بیانات اور سیاسی طرزعمل کی مخالفت کرنے لگے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت موجودہ صورت حال کو لمحہ فکریہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اصلاح و احوال کا بندوبست کرے۔

اس وقت صورت حال حقیقی طور پر انتہائی خوفناک منظر پیش کر رہی ہے اور تقاضا کر رہی ہے کہ حکومت فوری طور پر اپنی پالیسیوں کی تشکیل کے لئے کم از کم اندرون خانہ معاشی و اقتصادی ایمرجنسی ڈکلیئر کرے اور اس کے تحت فوری طور پر کام شروع کیا جائے کہ فیصل آباد کی حد تک چالیس فیصد صنعتیں اپنی استعداد سے کم چل رہی ہیں اور ایک بڑی شرح بندش کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اس سے قبل ہی حکومتی ترقی کے بیش بہا دعوو¿ں کے باوجود بیشتر صنعتی ادارے بندش کا شکار ہیں اگر حکومت نے فوری طور پر توجہ نہ دی تو مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور جس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہو گی، چاہے وہ اس کا اعتراف کرے یا نہ کرے لیکن مسائل کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہوں گے جو کسی طور پر ملکی معیشت اور غریب عوام کا نہیں سوچ رہے۔

معاشی و اقتصادی حلقوں کو سابق وزیراعظم کی نااہلی یا اہلی سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف اور صرف صنعتی اداروں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کارفرما نظر آ رہے ہیں اور بیشتر معاشی و اقتصادی حلقے جن میں پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ایسوسی ایشن اور بیشتر شہروں کے ایوان صنعت و تجارت شامل ہیں ان کے ذمہ داران اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انہیں سیاسی داو¿پیچ اور تبدیلیوں سے کوئی سروکار نہیں انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ کس کی حکومت آئے لیکن وہ برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے ساتھ توانائی ذرائع کی قیمتوں میں مسابقت کے حامل ممالک کے برابر راہ چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے وہ چینی سفیر سن وی ڈونگ کے اس بیان کا بھی بار بار تذکرہ کر رہے ہیں جس میں انہوں نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ سیاسی تبدیلیوں سے چین کو کوئی سروکار نہیں، وہ پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں۔ لہٰذا حکومت، حکومتی وزراءو مشیر اور سابق وزیراعظم کو بھی سوچنا چاہیے کہ ملکی معیشت کن مسائل سے دوچار ہے اور ان مسائل میں مزید کس حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

موجودہ حکومت کی اس سے زیادہ نااہلی اور کیا ہو گی کہ ملک کے معاشی و اقتصادی مسائل میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ برآمدات گر رہی ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر حکومتی ادارے اپنی رپورٹ میں واضح کر رہے ہیں کہ اربوں ڈالر کم ہو رہے ہیں اور صنعتوں کی بندش کا بدترین سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ صنعت کار، تاجر اور برآمدی حلقے احتجاج کرتے ہوئے مطالبات کر رہے ہیں مگر حکومت کسی بھی معاملے پر توجہ دینے کی بجائے صرف اور صرف سیاسی راگ الاپنے میں مصروف ہے۔

وزیراعظم سے لے کر وزیرخزانہ اور تمام متعلقہ وزارتوں کے ذمہ داران اس طرف توجہ دینے کی بجائے منظر سے غائب نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جن سے صنعت کاروں نے ان کے کاروباری پس منظر کے پیش نظر بہت ساری توقعات وابستہ کر لی تھیں وہ بھی وزیراعظم کی کارکردگی اور عدم توجہی کو انتہائی مایوس کن قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران فوری طور پر معاشی و اقتصادی معاملات پر توجہ دیں اور انہوں نے جو بھی سیاسی کردار ادا کرنا ہے اس کو اپنے طور پر جاری رکھیں لیکن معیشت سے متعلقہ امور کو لاوارث نہ چھوڑیں کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے اتنے دوررس بھیانک اثرات ہوں گے کہ آئندہ کئی سال تک ان مسائل سے باہر نکلنا ممکن ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hakumat Maishat Our Siyasat Main Kashmakash is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 October 2017 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.