ایکسپورٹ میں کمی کاخطرناک رحجان

درآمدات میں اضافہ کئے بغیر معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکے پاکستان کی معیشت کی بگڑتی حالت کی تین بڑی وجوہات یہ ہیں کہ ملک کازیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدرات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

پیر 15 فروری 2016

Export Main Kami Ka Khofnaak Rohjaan
پاکستان کے حکمران یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے کیمیائی نسخے استعمال کرکے پاکستان کو ایشین ٹائیگربنادیں گے۔ دوسری جانب عوام دیکھ کر حیران وپریشان ہوتے رہتے ہیں کہ ان نیم حکیم سیاستدانوں کے نسخوں اور اقدامات کے بعد پاکستان کی معیشت کی حالت اور زیادہ خراب ہوگئی ہے کہ اس پر یہ جملہ بالکل درست انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی“ پاکستان کی معیشت کی بگڑتی حالت کی تین بڑی وجوہات یہ ہیں کہ ملک کازیادہ انحصار درآمدات پر ہے۔

مطلب یہ کہ اس کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدرات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ برآمدات کم ہونے کے باعث تجارتی خسارہ میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک کوچلانے کیلئے عالمی وعلاقائی مالیاتی اداروں سے قرضے لینا پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

آج ان قرضوں کاحجم اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ ملک کاہر شہری تقریباََ ایک لاکھ روپے کا مقروض قرار دیاجارہاہے۔ معاشی بدحالی کی دوسری بڑی وجہ قرضوں کاپھیلتا ہوا حجم ہی ہے جو بیس ہزار روپے تک پہنچ چکا ہے۔

پاکستان کی ترقی وخوشحالی کی راہ میں تیسری بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں سالانہ ہزاروں کی ذاتی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی برامدات میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ 2013ء میں پاکستان کی برآمدات 25ارب ڈالرز تھیں جواب کم ہو کر23ارب ڈالر پرآچکی ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پاکستانی برامدات میں کمی پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

لوڈشیڈنگ، سکیورٹی مسائل، دہشت گردی اور پیچیدہ کاروباری صورتحال کے باعث اشیاء کی پیداواری لاگت زیادہ ہوجاتی ہے۔ اگرحکومت نے انڈسٹری پر خاص توجہ نہ دی تویہ اپنے حریف ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ کاٹن کی قیمت گرنے اور ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث پاکستان کی مشکلات میں اضافہ وہا ہے۔ پاکستانی روپے میں استحکام لائے بغیر یورپ سمیت دیگر مارکیٹوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔


یواین اوکی رپورٹ جو(1980-2011ء) تک مرتب کی گئی ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ 30برسوں میں بھارت کی ایکسپورٹ 0.43سے 1.7فیصد پر جاپہنچی ہے ۔ بنگلہ دیش کی 0.04سے 0.14فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملائیشیا کی ایکسپورٹ 0.74سے 1.34فیصد، تھائی لیند کی 0.37سے 1.35 فیصد جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹ 0.15فیصد پر رک چکی ہیں۔ 2013ء میں یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پلس (GSp+) کادرجہ دیا تھا جو 2017ء تک برقرار رہے گا۔

اس کے بعد اسے یہ حق حاصل ہوگا کہ پاکستان اپنی اشیاء زیروٹیرف پر پریفرنیشل ریٹ پر مہیا کرسکتا ہے اس لئے پاکستان کو اس اہم آفر سے فائدہ حاصل اٹھاتے ہوئے اپنی ایکسپورٹس میں اضافہ کرناچاہئے اور اس کام کیلئے نئی مارکٹیس تلاش کرنا ہوں گی کیونکہ پاکستان کی ایکسپورٹس کی عالمی منڈیوں تک رسائی گزشتہ کئی برسوں سے جمود کاشکارہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ کابڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے جبکہ چمڑا، چاول اور دیگر مصنوعی اشیاء کا ایکسپورٹ میں 15فیصد حصہ ہے۔

پاکستان (WTO) کا ممبر ہے اس کے ساتھ ساتھ اس نے کئی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے معاہدے کررکھے ہیں اور ساؤتھ ایشین فری ٹریڈایگریمنٹ کے ساتھ ساتھ پاک چائنا فری ٹریڈایگریمنٹ کا حصہ بھی ہے۔ اس کی زیادہ تر ایکسپورٹس امریکہ، چین، افغانستان، دبئی، اور جرمنی میں کی جاتی ہے جبکہ یہ زیادہ تر اشیاء چین سعودی عرب،کویت، دبئی اور بھارت سے امپورٹ کرتاہے۔ پاکستان کو ایکسپورٹ کے حوالے سے طاری جمودکو توڑنا ہوگا۔ اس کام کیلئے اسے ایک طویل المدیی ایکسپورٹ پالیسی تشکیل دینا ہوگی اور بجلی بحران پر قابو پاتے ہوئے ایکسپورٹ آئمٹز تیار کرکے نئی مارکیٹس تلاش کرنا ہونگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Export Main Kami Ka Khofnaak Rohjaan is a Business and Economy article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 February 2016 and is famous in Business and Economy category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.