تحریک آزادی کشمیر اور بھارتی جارحیت!

اِنسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ خاموش کیوں؟․․․․․․․ ڈوگرہ حکمرانوں نے سازش سے کشمیری مسلمانوں کو بھارت کا غلام بنایا

منگل 9 جنوری 2018

tehreek e azadi kashmir or bharti jariyt
ریاض چودھری:
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جدوجہد 1931ء میں اس وقت شروع ہوچکی تھی جب پاکستان کا خواب دیکھنے والے مفکر پاکستان علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے پہلے 14 اگست 1931 ء کو لاہور میں یوم کشمیر منایا۔ کشمیر کی تحریک آزادی 1832ء میں پلندری اورنگ کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں باغی مسلمانوں کی کھالیں اتار کر درختوں پر لٹکادی گئیں۔

1931 ء میں قرآن کی توہین پر کشمیر میں دوبارہ تحریک شروع ہوئی۔ سری نگر جیل کے سامنے 22 کشمیریوں نے جام شہادت نوش کی اور علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ 14 اگست 1931ء کو لاہور میں یوم کشمیر منایابعد میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کی سازش اور گٹھ جوڑ کے نتیجے میں کشمیر بھارت کے قبضے میں گیا۔

(جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر کے فرزندان توحید ہرسال 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کے خلاف یوم احتجاج مناتے ہیں۔

اس دن مہارا جہ کشمیر نے ساز باز کے ذریعے مقبوضہ ریاست کا بھارت سے الحاق کردیا تھا حالانکہ اس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہ تھا۔ ریاست جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی اور مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن ڈوگرہ حکمرانوں نے سازش سے کشمیری مسلمانوں کو بھارت کا غلام بنادیا۔

14 اگست 1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کشمیری یہی سمجھتے رہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں کیونکہ کشمیر میں90 فیصد مسلمان ہیں کیا ہوا اگر ان کا راجہ ہندو ہے لیکن عوام تو مسلمان ہے مگر جب 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو کشمیری مسلمانوں کا صبر پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بھارت کو تقسیم ہوئے وہ ماہ ہوچکے تھے مگر راجہ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔

جغرافیائی ، مذہبی ، تہذیبی، قومی اور اصولی طور پر کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا اور یہ باضابطہ آزادی تاج برطانیہ نے برصغیر سے رخصتی کے وقت خود طے کیا تھا۔ دو قومی نظریے کی صدارت پر اصرار مسلمانان ہند اور ان کی لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کا تھا لیکن ہندوؤں کی جماعت کانگریس کو بھی یہ نظریہ تسلیم کرنا پڑا یوں باؤنڈری کمشن کی ضرورت پڑی اور بھارت میں دو آزاد ملکوں کی تشکیل اور فطری ضرورت کو انگریزوں نے بھی سند قبولیت بخشی۔

یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے کشمیری راجہ کو خط لکھا اور 27 اکتوبر کو ہی بھارتی فوج کشمیر میں داخل ہوگئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہو اکہ بھارتی فوج ایک منصوبے کے تحت کشمیر میں داخل ہونے کیلئے پہلے سے تیار تھی۔ اس کے بعد نومود پاکستان کیلئے کس طرح ممکن تھا کہ وہ کشمیر کی صورتحال سے لاتعلق رہ سکے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے پاس افرادی قوت، اسلحہ گولہ بارود، ذرائع آمدورفت کی بھی کمی تھی اور بھارت نے پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔

اسے یقین تھا کہ بھارتی افواج باآسانی پورے کشمیر کو اپنے قبضے میں کرلیں گی۔ تنازع کشمیر دراصل تقسیم ہند کے ایجنڈے کاحصہ ہے جس طرح پاکستان شمالی ہند میں مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ اسی اصول کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو 1947ء میں پاکستان میں شامل ہوناچاہیے تھا لیکن ہندو انگریزوں کی سازشوں کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے میں رکاوٹ ڈالی گئی اور جموں و کشمیر کا سازش کے ذریعے بھارت سے الحاق کیاگیا۔

1947ء میں مہاراجہ کشمیر اور بھارتی حکمرانوں نے ناپاک گٹھ جوڑ کرلیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرکے اس کے بڑے حصے پرقبضہ کرلیا تاہم کشمیریوں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے دو قرار دادیں منظور کیں جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خودار ادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔

بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کرینگے لیکن اس کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو نہ صرف حق خودار ادیت دینے سے انکار کردیا بلکہ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیری لیڈروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 1947ء سے اپنے لیڈروں کی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کوعملی جامہ پہنائے ۔

بھارت نے کشمیر کو اپنی نو آبادی بنالیا ہے۔ بھارتی سپاہی شناختی کارڈ دیکھتا ہے، تلاشیاں لیتا ہے، مارپیٹ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ کشمیری خواتین کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتا ہے۔ یہ 1947ء کی لیڈر شپ کا غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو دائمی بنانے کیلئے کئی منصوبوں پر عمل کررہا ہے جبکہ بھارتی حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے وہ چاہے مقبوضہ کشمیر میں جتنا پیسہ خرچ کرے وہ کسی طرح کشمیریوں کے دل جیت نہیں سکتا۔

کیونکہ وہ بھارت کی غلامی ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی بھی لالچ آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر ہٹ دھرمی کا راستہ اختیا کررکھا ہے اور کشمیر کے اس بڑے حصے پر قابض ہے جسے دنیا مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔ بھارت اب اس مسئلہ میں اتنا الجھ چکا ہے کہ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود اسے کوئی رستہ نہیں مل رہا ۔

یہاں تک کہ اب ریاستی دہشت گردی بھی حالات کو قابو میں نہیں لاسکتی۔ کشمیری بے چارے سالہا سال کے انتظار کے بعد مایوس ہوکر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوچکے ہیں جس پر بھارت مزید سیخ پا ہے۔ بھارتی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کے زمرے میں لاکر عالمی سطح پر بدنام کرسکے۔ اس سلسلے میں وہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا نام بھی دیتا ہے۔

حالانکہ بھارت خود اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ نہتے کشمیریوں کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ 27 اکتوبر 1947ء میں جو غیر قانونی اور نام نہاد معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کرکے جموں وکشمیر پرغاصبانہ قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پوری دنیا، اقوام متحدہ اور کشمیری کود، اس قبضہ کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے استصواب رائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :