نئے سال کا پہلا ہفتہ ، ڈکیتی و چوری کے 40واقعات

نیا سال پرانے مسائل، اعلیٰ افسران کے دعوے، جرائم کی شرح میں مسلسل خوفناک اضافہ، چوری، ڈکیتی و راہزنی کی وارداتوں پر شہریوں کا احتجاج، کیا یہ سب مسائل نئے سال 2018ء کے دوران حل ہو سکیں گے۔

منگل 9 جنوری 2018

Naye Saal Ka Pehla Hafta Daketi Aur Chori Kay 40 Waqiyat
احمد جمال نظامی:
نیا سال پرانے مسائل، اعلیٰ افسران کے دعوے، جرائم کی شرح میں مسلسل خوفناک اضافہ، چوری، ڈکیتی و راہزنی کی وارداتوں پر شہریوں کا احتجاج، کیا یہ سب مسائل نئے سال 2018ء کے دوران حل ہو سکیں گے۔ اس سوال کو میڈیا اور صحافیوں نے حد سے زیادہ اجاگر کر دیا ہے لیکن جرائم کی شرح ہے کہ قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہی اور اعلیٰ پولیس افسران روایتی انداز میں بڑے بڑے دعوے کرنے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔

سال 2018ء کا سورج یکم جنوری کو طلوع ہوا تو اپنے ساتھ جرائم کی بڑی بڑی داستانیں لے کر آیا۔ سال نو کے پہلے ہفتے کے دوران پنجاب کے دوسرے اور پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں چوری، ڈکیتی، راہزنی، نوسربازی، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور دیگر جرائم کی وارداتیں اپنے خوفناک نکتہ عروج پر ہیں۔

(جاری ہے)

اس صورت حال پر شہری اپنے آپ کو بے یارومددگار اور عدم تحفظ کا شکار تصور کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف اعلیٰ پولیس حکام بھی کسی سے پیچھے نہیں اور ان کی طرف سے جرائم پر قابو پانے کے لئے مختلف اجلاس منعقد کئے گئے، مختلف تھانوں کے انچارجز، ایس ایچ اوز، سرکلز ڈی ایس پیز اور ٹاوٴن ایس پیز کو مسلسل ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔

اس کشمکش میں جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ سامنے آنا بلاشبہ کسی تشویش اور خوفناک صورت حال سے کم نہیں۔ مشاہدہ کریں کہ سال نو کے پہلے ہفتے کے دوران روزانہ چوری، ڈکیتی اور راہزنی کی 30 سے 40وارداتیں رونما ہو رہی ہیں۔ ڈاکو بلاخوف و خطر نہ صرف شہریوں کو لوٹ رہے ہیں بلکہ معمولی مزاحمت پر اندھادھند فائرنگ کر کے انہیں شدید زخمی اور قتل بھی کیا جا رہا ہے۔

لہٰذا شہریوں کی طرف سے پولیس کی کارکردگی کو چیلنج کرنا اور مطالبہ کرنا کہ فوری طور پر جرائم کی شرح پر قابو پایا جائے، کوئی ناجائز مطالبہ نہیں لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود پورے شہر میں نظر نہیں آ رہا کہ پولیس گشت میں اضافہ کیا گیا ہو۔ ڈولفن فورس کی موجودگی سے جرائم پر قابو پایا جا سکا ہو البتہ سال 2017ء کے آخری روز ڈولفن فورس اپنے پہلے پولیس مقابلے میں بری طرح ناکام ضرور رہی اور اس کے دو اہلکار ڈاکووٴں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر زخمی ہو گئے۔

سال 2018ء کا پہلا ہفتہ انتہائی خوفناک معلوم ہو رہا ہے۔ اس دوران مختلف قسم کے جرائم کی داستانیں اور واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سال نو کے حوالے سے ہماری پولیس نے جرائم پر قابو پانے اور جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے کے لئے کسی قسم کا کوئی ہوم ورک نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور شہری اعلیٰ پولیس افسران و حکمرانوں سے سوال کناں ہیں کہ آخر حکومتی رٹ کہاں ہے اور محکمہ پولیس کی کارکردگی کیوں نظر نہیں آ رہی۔

فیصل آباد سے اس وقت وفاق میں چار وزیرمملکت ہیں جن میں وزیرمملکت برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری حاجی اکرم انصاری، وزیرمملکت برائے توانائی عابد شیرعلی، وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وزیرمملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خاں شامل ہیں۔ شہری حلقوں کی طرف سے بار بار سوال اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ چار وزیرمملکت ہونے کے باوجود پولیس کی کمزور گرفت اور امن و عامہ کی مخدوش تر صورت حال پر وزراء اپنا کردار کیوں ادا نہیں کرتے اور ان کی طرف سے کبھی بھی اعلیٰ پولیس حکام کی بازپرس کرتے ہوئے انہیں کیوں ہدایت جاری نہیں کی جاتی کہ وہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

فیصل آباد سے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں کا بھی تعلق ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں 2008ء سے اب تک دو انتخابات کے نتیجہ میں پنجاب کے وزیرقانون چلے آ رہے ہیں لیکن اس سارے عرصے سے اب تک شہریوں کا ان پر ایک گلہ رہتا ہے کہ اعلیٰ پولیس حکام کو امن و عامہ کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے احکامات جاری کریں۔ مختلف حلقوں کا یہ سوال اہم ہے کہ اتنے طویل عرصے میں جرائم کیوں کم نہیں ہو رہے ،قانون سے متعلق معاملات کے لئے قانون سازی اور وزارت قانون کومزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے، صوبہ بھر میں جرائم پیشہ عناصر اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں جرائم کی شرح مسلسل خراب سے خراب تر ہوتی چلی آ رہی ہے۔

سال نو 2018ء کا پہلا ہفتہ اس ضمن میں انتہائی خوفناک ہے اور وہ یہی کہانی بیان کر رہا ہے کہ حکومتی سطح پر عدم توجہی اور محکمانہ طور پر غفلت کے باعث جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور آئندہ بھی اس شرح میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ اعلیٰ پولیس حکام ہوں یا حکومتی متعلقہ شخصیات وہ جرائم کو زیادہ بڑا مسئلہ تصور نہیں کر رہے۔ پولیس صرف اور صرف وفاقی صوبائی وزراء، حکومتی شخصیات کو پروٹوکول اور سیکورٹی کے لئے اپنی گاڑیاں اور اہلکار فراہم کرنے کے علاوہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں جس کے نتیجہ میں کسی بھی ملک کے اندر قانون کا شعبہ اور سیکورٹی ادارے جو کہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ان اداروں میں سے پولیس کی کارکردگی بالکل غیرفعال ہو کر رہ گئی ہے۔

پولیس کا محکمہ مکمل طور پر عوام کا اعتماد کھو چکا ہے۔ اب چوری، ڈکیتی، راہزنی کی بہت ساری وارداتوں کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد مقدمات کے اندراج تک کے لئے تھانوں چوکیوں کا رخ نہیں کر رہے کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ مقدمہ درج کرانے کے لئے بھی بڑی سفارش درکار ہوتی ہے تو پھر ایسے مقدمے کے اندراج کا کیا فائدہ جس کے بعد پولیس جرائم پیشہ افراد کو نہ تلاش کرے اور نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے لیکن مدعی مقدمہ کو بار بار تھانے یا چوکی بلا کر اس کا وقت ضائع کیا جائے، اس کی تذلیل کی جائے اور اس کے مزید پیسے کا ضیاع کرایا جائے۔

سال نو 2018ء کے پہلے ہفتے کے دوران فیصل آباد میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ایک بارہ سالہ خانہ بدوش لڑکی کو قتل کر دیا گیا جبکہ مختلف وارداتوں کے دوران مزاحمت پر ایک چوکیدار سمیت دو افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ جڑانوالہ کے علاقہ پل شیروآنہ کے قریب خانہ بدوش خاندان کی جھگیوں میں موٹرسائیکل سوار تین ڈاکووٴں نے اسلحہ کے زور پر لوٹ مار کرتے ہوئے 15ہزار روپے چھین لئے اور مزاحمت پر اندھادھند فائرنگ کر دی جس کی زد میں آ کر 12سالہ رانی بی بی زخمی ہو گئی اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی۔

پولیس کے لئے ایسے واقعات اور امن و عامہ کی بگڑی ہوئی صورتحال کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں اور پولیس یقینی طور پر اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جس پر وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ صوبائی وزیرقانون کو فوری طور پر متحرک کریں اور انہیں پابند کریں کہ وہ صوبے کے تمام اضلاع میں پولیس کی کارکردگی بہتر اور فعال بنانے کے لئے اپنا منصبی کردار ادا کریں۔ اس سلسلہ میں فیصل آبادسے ابتدا کروائی جائے جو کہ صوبائی وزیرقانون کا ہوم ٹاوٴن بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :