سندھ میں نیب کے اختیارات کیلئے قانون سازی

حکومت سندھ نے صوبے میں نیب کو غیر موثر کر کے وفاق پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ نیب سے اختیارات کی منتقلی کیلئے سندھ اسمبلی سے منظور کروائے جانے والے قانون کی حتمی منظوری گورنر سندھ دیں گے ۔ گورنر سندھ اور وفاق کے سیاستدان اس پر ناخوش ہیں

جمعہ 7 جولائی 2017

Sindh Main NAB K Ikhtiyarat K Liye Qanoon Sazi
شہزاد چغتائی:
حکومت سندھ نے صوبے میں نیب کو غیر موثر کر کے وفاق پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ نیب سے اختیارات کی منتقلی کیلئے سندھ اسمبلی سے منظور کروائے جانے والے قانون کی حتمی منظوری گورنر سندھ دیں گے ۔ گورنر سندھ اور وفاق کے سیاستدان اس پر ناخوش ہیں۔ گورنر سندھ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سندھ میں نیب قانون منسوخ نہیں ہو سکتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے گیند گورنر سندھ کے کورٹ میں ڈال دی ہے جس کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا گورنر سندھ بل کی منظوری دیدیں گے۔ اگر گورنر سندھ نے بل پر دستخط نہیں کئے تو سندھ اسمبلی کو یہ بل دوبارہ پاس کرنا ہو گا جس کے بعد وہ خودبخود نافذ العمل ہو جائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ بل پیپلز پارٹی کی نیب زدہ شخصیات کو بچانے کیلئے نہیں لایا گیا بلکہ اس کا مقصد قیادت کو نیب کے شکنجے سے بچانا ہے کیونکہ وفاقی حکومت غیض و غضب کے عالم میں نیب کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کر سکتی ہے اور مسلم لیگ کی حکومت بھی حالیہ بحران میں ساتھ نہ دینے پر نیب کو پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کی قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ معاملہ عدالت میں گیا تو سندھ میں نیب قانون بحال ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتی ہے اور نیب کی یلغار کو روکنا چاہتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اس بل کی منظوری کے دوران جن قوتوں کی مخالفت کا سامنا رہا ان میں اپوزیشن‘ وفاق اور گورنر شامل ہیں۔ اپوزیشن نے بل کی منظوری پر خوب ہنگامہ پرپا کیا ہے۔

بل کی کاپیاں پھاڑ دی اور نو کرپشن نو کے نعرے لگا تی رہی۔
گورنر سندھ نے بل پر دستخط نہیں کئے تو پیپلز پارٹی کے پاس اس کا حل موجود ہے۔ اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کہ وفاق کیا کرے گا۔ صوبائی وزیر قانون ضیاء لنجار نے کہا ہے کہ 30 دن میں نیا قانون لایا جائے گا جو کے پی کے کی طرز کا ہو سکتا ہے‘ سندھ احتساب کمیشن بھی بن سکتا ہے۔ صوبے میں سندھ ہائر کمیشن بھی کامیابی سے کام کر رہا ہے جس کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم ہیں اس کے ساتھ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی موجود ہے۔

اس بات کا امکان ہے کہ نیب قانون کی منسوخی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا تو وہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرح کام کرتا رہے گا۔ کچھ عرصے قبل تک پیپلز پارٹی یہ الزام لگاتی تھی کہ نیب اور ایف آئی اے سندھ پر حملہ آور ہیں اب موقع ملتے ہی پیپلز پارٹی نے نیب سے نجات حاصل کر لی ہے۔ نیب پر وار کیلئے پیپلز پارٹی نے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب حکمران پاناما کیس میں الجھے ہوئے ہیں۔


وفاق اور سندھ کی کشمکش پرانی ہے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کئی بار وفاقی اداروں پر برس چکے ہیں نوری آباد کے پاور پلانٹ کو گیس نہ دینے پر بھی وزیراعلیٰ برہم ہو گئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ 100 میگا واٹ کے نوری آباد پاور پلانٹ کو گیس نہیں دی گئی تو پورے ملک کی گیس بند کر دیں گے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے بے شمار رہنماء نیب کے عتاب کا شکار ہیں۔

صوبائی وزیر قانون ضیاء لنجار نے صبح نیب کورٹ سے ضمانت کروائی اور شام کو نیب قانون کے خاتمے کا بل پیش کر دیا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ کرپشن پر پردہ ڈلنے کیلئے نیب قانون کو منسوخ کیا جا رہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ نیب ان سے سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ سندھ اسمبلی میں نیب پر پابندی کا بل پیش کیا گیا تو گرما گرم بحث ہوئی اپوزیشن کے ایک رکن نند کمار نے کہاکہ نیب کو الگ کرنے والے کل کہیں گے کہ نوٹوں پر آصف زرداری کی تصویر لگاؤ۔

خواجہ اظہار نے کہاکہ چیف سیکرٹری سمیت پوری بارات نیب کو مطلوب ہے۔ ایم کیو ایم کے سخت موقف پر صوبائی حکومت نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی سیکورٹی واپس لے لی۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ احتساب بل کی مخالفت اور سندھ اسمبلی میں گو زرداری گو کے نعرے لگانے پر ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی اور پی ایس 114 کے امیدوار کامران ٹیسوری کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ وفاقی اداروں کے اختیارات سلب کرنے پر بعض اپوزیشن جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا پہلے دن صرف تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں نے رسمی بیانات پر اکتفا کیا۔ جس روز بل پیش کیاگیا ایم کیوا یم بھی میدان میں آ گئی۔ نیب کے ڈائریکٹر جنرل سندھ الطاف باوانی نے کہا ہے کہ نیب کے خلاف قانون سازی سے فرق نہیں پڑے گا وہ کام کرتی رہے گی۔

آئینی اور قانونی ماہرین نے سندھ اسمبلی کی قانون سازی کو مسترد کر دیاہے۔سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل اور انتہا پسند ضمیر گھمرو اس ضمن میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ضمیر گھمرو نے کہا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے تحت وفاق کی بجائے سندھ کو اختیارات حاصل ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے وفاقی اداروں کو غیر موثر کر کے ریاست کو سخت پیغام دیدیا جس کے نتیجے میں نئی صورتحال پیدا وہ گئی اور سندھ میں کئی وفاقی ادارے سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کابینہ نے نیب اور ایف آئی اے کے پَر کاٹنے اور آئی جی سندھ سے پولیس افسران کے تبادلے کا اختیار سلب کرنے کا فیصلہ ایک ہی دن کیا۔ جب حکومت گڈ گورننس اور سندھ میں دودھ کی نہریں بہانے کے دعوے کرتی ہے تو اسے نیب کے اختیارات محدود کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ حکومت نہ صرف سیاسی کرداروں بلکہ اپنی حلیف بیوروکریسی کو احتساب سے بچانا چاہتی ہے۔

یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا سندھ وفاق کے اداروں کو غیر موثر کرنے کا فیصلہ خود کر سکتا ہے۔ نیب تو جب سے قائم ہوئی ہے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کر رہی ہے لیکن اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ایف آئی اے نے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے بلدیاتی اداروں کے معاملات کی تحقیقات کی اور گرفتاریاں کیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایف آئی اے نے اپنے قیام کے بعد صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے خلاف تحقیقات کی اور میڈیا ٹرائل کیا۔


ادھر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور حکومت سندھ کی کشمکش نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جس کے بعد حکومت سندھ نے آئی جی سندھ سے ایس ایس پی، ایس پی اور ڈی ایس پی حضرات کے تبادلے کے اختیارات واپس لے لئے ہیں جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان اور امن و امان کیلئے اٹھائے گئے اقدامات خطرے میں پڑے گئے۔ اختیارات کی واپسی کا نوٹیفکیشن وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے جاری کیا گیا۔

اس سے قبل حکومت آئی جی سندھ کو تقریباً غیر فعال کر چکی ہے۔ وزیر داخلہ انور سیال آئے روز ان پر برس پڑتے ہیں۔ حکومت کی ناراضگی سے آئی جی سندھ بھی عاجز آ چکے ہیں اور وہ عہدے چھوڑنا چاہتے ہیں تاہم سندھ ہائیکورٹ نے ان کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے لیکن اس وقت کسی کو نہیں معلوم کہ سندھ میں آئی جی کون ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی جی کو نان فنکشنل بنا کر حکومت کے پولیس کے 100 ارب کے وسائل اور ہزاروں ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

حکومت کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں پولیس مکمل طور پر سیاسی اور سیاستدانوں کے تابع ہو گئی ہے اور پیپلز پارٹی نے پورے ادارے کو تباہ کر دیا ہے۔ آئی جی سندھ سے پہلا اختلاف پولیس میں 10 ہزار بھرتیوں پر ہوا تھا آئی جی قابلیت کی بناء پر بھرتی کرنا چاہتے تھے لیکن پیپلز پارٹی جیالوں میں یہ نوکریاں بانٹنا چاہتی تھی۔ پھر پولیس کا بجٹ بھی ایک وجہ ہے۔

محکمہ تعلیم کی اسٹیبلشمنٹ کابجٹ 200 ارب روپے ہے اور پولیس کا 100 ارب کے لگ بھگ ہے یہ بجٹ سیاسی حکومت اور پولیس افسران مل کر ہڑپ کرتے ہیں اس لئے وہ ان کیلئے سازگار اور فول پروف ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبائی وزراء اور بیوروکریسی بلاخوف و خطر سندھ کے مالیات سے انصاف کر سکیں۔ سندھ میں نیب کے دن دہاڑے اور سفاکانہ قتل کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور صوبائی وزراء کو ریلیف ملے گا اور ان کے سروں پر لٹکتی تلوار ہٹ جائے گی۔

اس لحاظ سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کیلئے یہ بڑا بریک تھرو ہے۔ سندھ کابینہ کی منظوری کے بعد سندھ اسمبلی نے ایکٹ منظور کیا۔ اب گورنر نے منظوری دیدی تو صوبائی اداروں سے متعلقہ نیب کے اختیارات محکمہ انسداد بدعنوانی کو شفٹ ہو جائیں گے۔ صوبائی حکومت نے نیب کو سندھ سے نکالنے کی ٹھان لی ہے۔دریں اثناء نیب قانون کی منسوخی کا اپیکس کمیٹی نے بھی نوٹس لے لیا۔

نیب قانون کی منسوخی کے چند گھنٹے کے بعد اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کئے جانے کی اطلاع آ گئی۔ منگل کو ہونے والے اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی حیران کن طور پر شرکت کی۔ اس سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ایک بار اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے تو اس اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔ منگل کو اپیکس کمیٹی نے کرپشن کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :