پارلیمانی تقریر کو بطور شواہد جائزہ لے سکتے ہیں، سپریم کورٹ

وزیر اعظم حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں، پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے،اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہوگی،جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دوران کیس ریمارکس وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل248 کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا،مخدوم علی خان کے دلائل تقریر اور دستاویزات کے موقف میں تضاد ہے،جسٹس عظمت سعید کے ریمارکس مریم نواز شریف نے 7 صفحات پر مشتمل انکم ٹیکس اور تحائف کی دستاویزات اور ثبوت عدالت میں پیش کر دیئے،مزید سماعت آج پھر ہوگی

بدھ 18 جنوری 2017 11:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جنوری۔2017ء) جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمانی تقریر کو بطور شواہد جائزہ لیا جاسکتا ہے، پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے،اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہوگی،آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں جبکہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے تقریر اور دستاویزات کے موقف میں تضاد ہے۔

منگل کے آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پانامہ کیس کی سماعت کی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم نے آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ نہیں مانگا۔جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مخدوم علی خان آپ اصل ایشو پر فوکس کریں، پارلیمنٹ میں تقریر کی بنیاد پر وزیراعظم کو پراسیکیوٹ نہیں کررہے۔

(جاری ہے)

مخدوم علی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم کو امور مملکت چلانے پر استثنیٰ حاصل ہوتا ہے،جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ آپ کا کیس اظہار رائے کی آزادی کا نہیں، جو آئین دیتا ہے، آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں مختلف مقدمات کے حوالے بھی پیش کئے۔ چوہدری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی استثنیٰ مانگا تھا۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی، آپ کے ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کا حق دیتا ہے، آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا، اپنے دلائل کو اپنے کیس تک محدود رکھیں، آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ بھارت میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہوتی، وہاں ججز کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے قرارداد کی منظوری ضروری ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ججز کے ہٹانے کا اختیار دینا غیر محفوظ ہو گا، بھارت میں بحث جاری ہے کہ ججز کے احتساب کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مخدوم علی خان سے کہا کہ گزشتہ روز آپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ کرنے کے اختیار کا ذکر کیا تھا۔

نیوزی لینڈ کے ارکان اسمبلی نے پارلیمنٹ کے فلور پر تقریر اور میڈیا پر کہا کہ اپنی بات پر قائم ہیں اورعدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر ارکان کے خلاف بطور ثبوت استعمال کی جا سکتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی عدالت بھی ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیںآ ئین کے آرٹیکل 68 کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات ہو تو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا، مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 68 اور204 ججز کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دنیا بھر کی پارلیمان میں ارکان آپس میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں،کیا ان جھگڑوں کو بھی عدالت میں لایا جا سکتا ہے،ایسے عدالتی حوالے موجود ہیں جس کے تحت عدالت پارلیمانی کاروائی کا جائزہ لے سکتی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ تقریر کو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا،تقریر کو بطور شہادت پیش نہ کرنے کے عدالتی فیصلوں کے حوالے موجود ہیں،برطانیہ میں قانون ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کے قریب آنے سے روکا جاتا ہے،ایسا یہاں ہونے لگ جائے تو پارلیمانی نظام متاثر ہونے کا خد شہ ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ کی تقریر حقائق کے مطابق نہیں،آپ پر دوسرا الزا ہے کہ تقاریر میں تضاد ہے،الزام یہ بھی ہے کہ تقریر اور دستاویزات کے موقف میں بھی تضاد ہے،درخواست گزار کا موقف ہے کہ والد اور بچوں کے بیانات میں بھی فرق ہے۔

مخدم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 66 کا اطلاق ہوگا تو کوئی تضاد نہیں ہوگا۔عدالت آرٹیکل66 کے تحت جائزہ نہ لے تو کوئی تضاد نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پارلیمنٹ سے باھر کی کارروائی استحقاق کا حق نہیں رکھتی،مخدوم علی خان نے کہا کہ دونوں تقریر پر تضاد ہے لیکن اگر اسمبلی کی تقریر پرآرٹیکل 66 کا اطلاق ہوگا تو تضاد ختم ہوجائے گا، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ہم کسی قانون کی تشریح کرتے ہیں تو اراکین پارلیمنٹ کی تقاریر ھمارے سامنے رکھی جاتی ہیں،جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیامانی تقریر کو بطور شواہد جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کے وکیل نے وزیراعظم کی تقریر کا قتباس پڑھ کر سنایا،اقتباس میں بچوں کے بیرون ملک کے کاروبار کی تفصیل بتائی گئی،اس تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جاسکے،وزیر اعظم کی تقریر یا ان کے بچے کی بیان میں اگر کوئی تضاد ہے تو بھی وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا،وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لئے ان کا صادق۔

امین اور راست گو ہنہ ہونے کا تعین ہوناچاہیے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے اور عدالت اس کی تشریح کرتی ہے،اگر تشریح کی غرض سے تقریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خلاف ورزی نہیں ہوگی،جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا آرٹیکل 66 صرف پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر استثنی دینے سے متعلق ہے ،صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ قوم سے کئے گئے خطاب کا بھی سوال ہے،اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے سوال کیا کہ مخدوم علی خان صاحب کیا بچے سچ بول رہے ہیں یا والد ۔

جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمانی تقاریر کو اس حد تک استثنی حاصل ہے کہ کئی مواقع پر عدالت نے قانون کی تشریح کے لئے بھی تقاریر کا جائزہ نہیں لیا۔ عدلات کے سامنے وزیر اعظم کا نہیں کسی رکن قومی اسمبلی کو نااہل ہونے کا سوال ہے۔ اس مقصد کے لئے عدالت کو قانون کا سھارا لینا ہوگا،اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ٓرٹیکل 66 کااستحقاق انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔

وکیل وزیر اعظم نے کہا کہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کوئی غلط بیانی نہیں کی،ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں جس سے ثابت ہو کہ دوبئی فیکٹری سے نواز شریف کا کوئی تعلق تھا،ویلتھ ٹیکس عدم ادائیگی پر کسی عدالت کا فیصلہ نواز شریف کے خلاف نہیں،نواز شریف کے جلاف ویلتھ ٹیکس عدم ادائیگی کا کوئی معاملہ زیر التو نہیں،ویلتھ ٹیکس قانون 2003 میان منسوخ ہو چکا ہے،قانون منسوخ ہوئے 14 سال گزر گئے اور اس پر نااہلی مانگی جارہی ہے،1980 میں ویلتھ ٹیکس کے حوالے سے جو الزام لگایا ہیے اد کان قانون 2003 میں ختم ہو گیا ہے،ٹیکس کی ادائیگی کی تحقیق چار سال کے عرصے کے دوران ہوتی ہے بعد میں نہیں ہو سکتی،اگر پی ایم کے ٹیکس معاملات کھولیں گے تو سب کے معاملات کی تحقیقات ہونگی ،عدالت نے مزید سماعت آج تک کے لئے ملتوی کر دی۔

قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی پاناما کیس میں سپریم کورٹ میں اضافی دستاویزات جمع کرادیں جن میں انکم ٹیکس ،تحائف کی تفصیلات بھی پیش کیں۔مریم نواز شریف نے اپنے 7 صفحات پر مشتمل جواب میں موقف اپنایا کہ1992 میں اپنی شادی کے بعد سے اب تک اپنے والد کی زیرکفالت نہیں ہوں ، مجھے والد کے زیرکفالت قرار دینا بدنیتی پر مبنی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مخالفین اس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کروانا چاہتے ہیں ، میرے زیر کفالت ہونے کا معاملہ نہ تو مفاد عامہ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی درخواست گزار کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ مریم نوازنے گزشتہ 5 سال کے زرعی غیر زرعی آمدنی کے ٹیکس کا بھی حوالہ دیا، جس کے مطابق 2013 میں مریم نواز نے 65 لاکھ سے زائد ، 2014 میں 88 لاکھ سے زائد ، 2015 میں 93 لاکھ سے زائد اور 2016 میں ایک کروڑ 21 لاکھ روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا۔

انہوں نے جواب میں بتایا گیاہے کہ شمیم زرعی فارم کے مکان میں مشترکہ طورپر اخراجات ادا کئے جاتے ہیں ،مریم نواز کی جانب سے دو بینکوں کی سٹیٹمنٹ میں بھی جمع کروائی گئی ہے ، نواز شریف کی جانب سے تحائف کی تفصیلات کیساتھ نواز شریف اور ان کی والدہ شمیم اختر کی ویلتھ سٹیٹمنٹ بھی جمع کرا دی گئی ، موقف اپنایا گیا کہ غلط الزامات لگانے پر درخواست گزار کے خلاف حکم جاری کیا جائے۔