مصری عدالت کا بحری احمر کے دو جزیرے سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ برقرار

حکومت یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی، جج نے فیصلہ سنایا ، دو جزیرے سعودی عرب کی ملکیت تھے ، کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا یہ جزائر خلیجِ عقبہ کے دھانے پر واقع ہیں اور یہاں مصری فوج اور کثیرالقومی امن فوج کے سپاہیوں کے علاوہ کوئی آبادی نہیں جزیرے ہمیشہ سے سعودی عرب کی ملکیت تھے ، سعودی عرب نے سنہ 1950 میں مصر سے درخواست کی تھی کہ ان جزیروں کی حفاظت کے لیے وہ وہاں پر اپنے فوجی تعینات کر دے، مصری صدر

منگل 17 جنوری 2017 11:34

قاہرہ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جنوری۔2017ء )مصر کی ایک اعلیٰ عدالت نے بحیر احمر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔مصر کی اعلیٰ انتظامی عدالت (ہائی ایڈمنسٹریٹو کورٹ) نے یہ فیصلہ حکومت کی اس اپیل پر سنایا ہے جس میں مصری حکومت نے استدعا کی تھی کہ ایک ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ تیران اور صنافیر نامی جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے کو روک دے۔

پیر کو جب جج نے یہ فیصلہ سنایا کہ حکومت یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کہ مذکورہ دو جزیرے دراصل سعودی عرب کی ملکیت تھے، تو کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا۔ان جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے پر جب گذشتہ سال اپریل میں دستخط کیے گئے تھے تو مصر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔

(جاری ہے)

یہ جزائر خلیجِ عقبہ کے دھانے پر واقع ہیں اور یہاں مصری فوج اور کثیرالقومی امن فوج کے سپاہیوں کے علاوہ کوئی آبادی نہیں ہے۔

اس بارے میں صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا تھا کہ یہ جزیرے ہمیشہ سے سعودی عرب کی ملکیت تھے اور سعودی عرب نے سنہ 1950 میں مصر سے درخواست کی تھی کہ ان جزیروں کی حفاظت کے لیے وہ وہاں پر اپنے فوجی تعینات کر دے۔لیکن اس بیان کے بعد السیسی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اصل میں وہ یہ جزیرے سعودی عرب کو ’فروخت‘ کر رہے ہیں جس کے جواب میں وہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی امداد لے رہے ہیں۔

ناقدین کے بقول سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے قاہرہ کے دورے کے موقع پر جس امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا وہ ان ہی جزیروں کی منتقلی کے جواب میں تھا۔سنہ 2013 میں جب السیسی نے اپنے پیشرو صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدارپر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سے سعودی عرب مسٹر سیسی کی مدد کرتا رہا ہے۔گذشتہ برس مسٹر سیسی کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ مصر کی سمندری سرحد کے تعین کے منصوبے کے اعلان کے بعد مصر بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

مسٹر سیسی کے سعودی عرب کے ساتھ معاہدہے کو سابق صدارتی امیدوار خالد علی کے علاوہ وکلا کے ایک بڑے گروپ نے عدالت میں چیلنج کر دیا تھا۔خالد علی کا موٴقف تھا کہ مصر اور خلافتِ عثمانیہ کے درمیان سنہ 1906 میں سمندری حدود کا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق مذکورہ دونوں جزیرے مصر کی ملکیت قرار دیے گئے تھے اور سعودی عرب کی مملکت کا قیام اس کے برسوں بعد سنہ 1932 میں عمل میں آیا تھا۔

متعلقہ عنوان :