اسٹیٹ بینک نے پارلیمنٹ کو معاف کردہ قرضوں بارے معلومات کی فراہمی سے کبھی انکار نہیں کیا،بیان

جمعرات 15 دسمبر 2016 11:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15دسمبر۔2016ء)اسٹیٹ بینک نے پارلیمنٹ کو معاف کردہ قرضوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی سے کبھی انکار نہیں کیا۔ درحقیقت یہ معلومات عوام کے لیے ہمیشہ دستیاب رہتی ہیں کیونکہ یہ بینکوں کے لیے لازمی ہے کہ اپنے مالی گوشواروں میں ہر سال پانچ لاکھ روپے اور اس سے زائد کے معاف کردہ قرضوں اور افراد کے نام ظاہر کریں۔

اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں وقتاً فوقتاً معاف کیے جانے والے قرضوں سے متعلق بحث کے حوالے سے بعض حقائق کو ریکارڈ پر لانا ضروری ہے سینیٹ (پارلیمنٹ کا ایوان بالا) کی جانب سے معلومات کا حالیہ مطالبہ یہ تھا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ایک بینک سے 5 ملین روپے یا زائد قرض لینے والے افراد کے نام اور ان کیسوں کی تعداد ظاہر کی جائے جن سے قرضے وصول کیے گئے ہیں اور معاف کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک نے واضح طو رپر جواب دیا کہ مذکورہ مدت کے دوران متعلقہ بینک سے 5 ملین روپے یا زائد کا کوئی قرضہ معاف نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ پچھلے پانچ برسوں میں اس بینک کی جانب سے دیے گئے قرضوں کی تعداد اور وصولی کی معلومات بھی یکجا کرکے سینیٹ کو فراہم کی گئیں۔تاہم گذشتہ پانچ برسوں میں اس بینک سے قرض لینے والوں جن کے کیسوں میں کوئی قرض معاف نہیں کیا گیا، کے نام بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء کی شق 33اے اور پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کی شق 9 کی بنا پر ظاہر نہیں کیے گئے کیونکہ ان شقوں کی رو سے صارفین کی ذاتی معلومات منکشف نہیں کی جاسکتیں۔

بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء کی شق 33 اے جس کا عنوان ’فیڈلٹی اینڈ سیکریسی ‘ میں کہا گیا ہے کہ (1) ذیلی شق (4) سے مشروط، ہر بینک اور مالی ادارہ، سوائے اس کے کہ بصورت دیگر قانون کے تحت لازم ہو، بینکاروں میں رائج طور طریقوں پر عمل کرے گا اور خاص طور پر صارفین کے امور سے متعلق کوئی معلومات منکشف نہیں کرے گاماسوائے ان حالات کے جن میں قانون اور بینکاروں میں رائج طور طریقوں کے مطابق بینک کے لیے ایسی معلومات منکشف کرنا ضروری یا موزوں ہو۔

پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کی شق 9 جس کا عنوان ’سیکریسی آف بینکنگ ٹرانزیکشنز‘ میں کہا گیا ہے کہ تمام بینک اور مالی ادارے مصدقہ بینکاری لین دین کو خفیہ رکھنے پر سختی سے عمل کریں گے خواہ وہ کسی کی بھی ملکیت، کنٹرول یا انتظام میں ہو۔اسٹیٹ بینک سب پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں شفافیت قائم رکھنے پر محکم یقین رکھتا ہے اور پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندوں کی جانب سے کسی بھی محاسبے کے لیے تیار ہے۔ مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک وہ تمام معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار رہا ہے اور رہے گاجو قانون کے تحت مہیا کی جاسکتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :