قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس

18 برس سے قبل زبردستی تبدیلی مذہب کا بل 2016 ء مسترد 100 برس کی عمر ہو یا 10 زبردستی مذہب تبدیل کرنا غلط ہے ،کمیٹی ارکان کمیٹی کا بھارتی ظلم و بربریت کی شدید مذمت،اقوام عالم سے نوٹس لینے کا مطالبہ

ہفتہ 3 دسمبر 2016 11:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔3دسمبر۔2016ء ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 18 برس سے قبل زبردستی تبدیلی مذہب کا بل 2016 ء مسترد کر دیا کمیٹی کے ارکان نے متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا زبردستی تبدیلی مذہب دس برس کی عمر میں ہو یا سو برس کی عمر میں ایسا کرنا غلط ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اب تک 18 برس سے کم عمری میں تبدیلی مذہب کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ۔

اس حوالہ سے کوئی شکایت یا کیس بھی درج نہیں ہوا ۔چیئرمین کمیٹی بابر نواز کی زیر صدارت اجلاس پارلیمنٹ کی کمیٹی روم نمبر 7 میں منعقد ہوا ۔انسانی حقوق کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بابر نواز نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ میرے حلقہ انتخاب میں ایک مسلمان شخص نے ہندو مذہب اختیار کیا اس کا خاندان بھی ہندو ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اس خاندان کو خدائی کے دوران کچھ مورتیاں بھی ملیں جس کی انہوں نے پوجا شروع کر دی ہے ہندو ممبر رکن قومی اسمبلی و رکن کمیٹی سنجے پروانی نے کہا میں انہیں ملنا چاہوں گا۔

انسانی حقوق کی کمیٹی نے کشمیر میں ہندو جارحیت اور بھارتی ظلم و بربریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا بھارت انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کر رہا ہے بھارت انسانی حقوق کا علمبردار بنتا ہے لیکن معصوم بچوں کو مار رہا ہے ۔لائن آف کنٹرول پر معصوم شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔اقوام عالم اس کا نوٹس لیں ۔نیشنل کمیشن فا ر ہیومن ڈویلپمنٹ کے چیئرمین کی بھاری تنخواہ زیر استعمال 4 ہزار سی سی گاڑی ، غیر قانونی بھرتیوں اور ڈیلی ویجز ملازمین کی ایک لاکھ 20 ہزار تنخواہ پر ہائرنگ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس ادارہ کی خود مختاری پر کڑی تنقید کرتے ہوئے چیئرمین اور اراکین کمیٹی نے کہا یہ کون لوگ ہیں ؟سرکاری طور پر ڈیلی ویجز ملازمین کی تنخواہ 50 ہزار تک ہے ،یہ کمیشن حکومت نے اپنے افراد کو نوازنے کے لیے بنایاگیا ہے کیا؟ہم اس کمیشن سے تفصیلی نشست رکھیں گے ، کتنے ملازمین بھرتی کیے ، کیا تنخواہیں ہیں ، انسانی حقوق کی کمیٹی برائے قومی اسمبلی کے ماتحت ہے سرکاری خزانے سے بندر بانٹ نہیں ہونی چاہیئے ۔

گڈانی میں شپ میں ہونیوالی 200 سے زائد انسانی جانوں کے ضیائع پر بھی کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وہاں جانے اور زہریلی گیس وغیرہ سے وہاں کے لوگوں کا متاثر ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا وہاں ہمیں سب کو جانے کی ضرورت ہے ۔حقائق کو دیکھا جائے گا آئندہ ایسے واقعات رونما ہوں ،بلوچستان اور صوبہ سندھ کی حکومت کے ذمہ داران کو کمیٹی میں بلائیں گے ۔

20 دن تک آگ پر قابو کیوں نہیں پایا گیا۔وزارت انسانی حقوق کے حکام نے بتایا کہ 28 اور 28 دسمبر کو ہمارے افسران گڈانی میں گئے اس کی رپورٹ بھی کمیٹی میں پیش کی جائے گی۔چیئرمین نے آئندہ اجلاس میں گڈانی ، کشمیر اور سیالکوٹ میں خواجہ سرا ؤں پر ظلم و تشدد کے واقعات پر علیحدہ اجلاسوں میں تفصیلی ڈسکس کرنے کا کہا ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے انسانی حقوق کی کمیٹی برائے قومی اسمبلی ٹھوس لائحہ عمل پیش کرے گی ۔

چیئرمین کمیٹی بابر نواز نے کہا ہماری کمیٹی کی عمر اگرچہ کم ہے لیکن ہمارا کام بہت زیادہ ہے ، پارلیمنٹ کی تمام کمیٹیوں سے اچھا کام ہمارا ہے ،ہماری 35 کے قریب کمیٹیاں ہیں ۔ہم کاکردگی کے حوالے سے سب کمیٹیوں سے آگے ہیں ۔پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی سابق سپیکر اسمبلی ممبر کمیٹی فہمیدہ مرزا کو پہلی بار کمیٹی اجلاس میں آمد پر خوش آمدید کہا گیا ۔

فہمیدہ مرزا نے کہا کراچی میں اور گڈانی میں جس طرح انسانی ہلاکتیں ہوئیں اس پر سندھ حکومت اور بلوچستان حکومت کی سستی غفلت بھی ہے ۔ہمارے ملک کے بارے انسانی حقوق کے حوالے سے پہلے ہی اچھا پیغام نہیں جاتا پروپیگنڈہ بھی بہت ہوتا ہے اس پر کمیٹی کو ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہے ۔گڈانی ایشو کے کیا حالات تھے ایمر جنسی ڈیل کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا 20 دن تک آگ پر قابو کیوں نہیں پایا گیا ۔

اس کے بعد بھی چھوٹا واقعہ ہو اہے ، ایسے واقعات معمول ہیں ۔ان حکومتوں کے افراد کمیٹی میں آنے چاہیئں ۔ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہا 9 ہزار سے زائد مزدور ہیں جو زہریلی گیس نکنے سے متاثر ہو رہے ہیں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہمارا ملک ہے سانس کی تکلیف بڑھ رہی ہے ۔اس وقعہ میں 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔چیئرمین کمیٹی بابر نواز نے کہا جس طرح ہم نے گردوں اور جگروں کی خرید و فروخت سب متحد تھے اس پر موثر کام کیا اس ایشو پر بھی کام کریں گے ۔

قائمہ کمیٹی کے اقلیتی رکن سنجے پروانی نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل غور کے لیے پیش کیا ،سنجے پروانی نے کہا یہ بل 18 سال سے قبل تبدیلی مذہب پر پابندی سے متعلق ہے ۔سندھ اسمبلی ایسا ہی بل منظور کر چکی ہے ۔جس کی تمام جماعتوں نے حمایت کی ہے زبردستی کی شادی پر بھجی پابندی ہونی چاہیئے ۔اسے مذہب کے بجائے انسانی حقوق کے معاملے کے طور پر دیکھا جائے ۔

چیئرمین بابر نواز نے کہا اب تک 18 برس سے کم عمری میں تبدیلی مذہب کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ۔اس حوالہ سے کوئی شکایت یا کیس بھی درج نہیں ہوا ۔سنجے پروانی نے کہا ایسے پانچ سو سے زائد واقعات ہو چکے ہیں مگر زیادہ تر سامنے نہیں لائے جاسکے ۔ممبر کمیٹی عالیہ کامران نے کہا اسلام الہامی مذاہب میں سب سے زیادہ روشن خیال مذہب ہے ،کسی کے مذہب تبدیل کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔

آج دس سال کی بچی کو ہر معاملے اور برے بھلے کا پتہ ہوتا ہے ۔چیئرمین کمیٹی بابر نواز نے کہا یورپ میں آج حاملہ ہونے والی 98 فیصد لڑکیاں 16 برس سے کم عمر ہوتی ہیں ۔صاحبزادہ عمر یعقوب نے کہازبردستی مذہب کی تبدیلی کی کسی بھی عمر میں اجازت نہیں ہونی چاہیئے ۔ مسلم لیگ ن کی ممبر قومی اسمبلی آسیہ ناز تنولی نے کہاآج دور تبدیل ہو گیا ہے ۔ہر جگہ بچے کو اچھے برے معاملے کا علم ہوتا ہے ایسابل پاس نہیں کیا جاسکتا ۔

کرن حیدر نے کہا میں ایسے بل کی بھر پور مخالفت کرتی ہوں ۔عامر خان نے کہا زبردستی تبدیلی عمر کسی بھی عمر میں جائز نہیں۔ ساجد نوازنے کہا اس بل کی بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے اس کے بعد ہی کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔چیئر مین کمیٹی نے کہا اگر کوئی زبردستی تبدیلی مذہب یا شادی کا کوئی واقعہ آیا تو اس کی مزمت کریں گے ۔ایسا معاملہ سامنے آیا تو کمیٹی اس پر سوموٹو نوٹس لے گی ۔اب تبدیلی مذہب صرف ہندو یا عیسائی نہیں کرتے مسلمانوں کے تبدیلی مذہب کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں ۔ایک مسلمان ہندو ہو گیا اس کا خاندان بھی ہندو ہو گیا ہے ۔

متعلقہ عنوان :