پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس

ایف بی آر کے کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق 43 ارب روپے کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ایف بی آر اور آڈٹ حکام نے آڈٹ اعتراضات پر ایک دوسرے کی وضاحتیں تسلیم نہیں کیں، معاملے کو دوبارہ ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کو بھجوانے کی ہدایت کردی گئی آڈٹ حکام ڈی اے سی اجلاس میں ہماری جانب سے پیش کی جانے والی وضاحتیں تسلیم نہیں کرتے، ایف بی آر حکام کا الزام

بدھ 30 نومبر 2016 11:39

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30نومبر۔2016ء ) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر اور آڈٹ حکام کے مابین 43 ارب روپے کے آڈٹ اعتراضات پر ایک دوسرے کی وضاحتیں تسلیم نہ کرنے پر معاملے کو دوبارہ ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کو بھجوانے کی ہدایت کردی گئی ہے ۔ اجلاس میں ایف بی آر حکام نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ حکام ڈی اے سی اجلاس میں ہماری جانب سے پیش کی جانے والی وضاحتیں تسلیم نہیں گرتے ہیں اور معاملے کو پی اے سی میں لایا جاسکتا ہے جس پر آڈٹ حکام نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے جاری کئے جانے والے ایس آر اوز میں ابہام ہے اگلے ڈی اے سی میں ڈائریکٹر جنرل آڈٹ شرکت کرینگے چیئرمین پی اے سی نے آڈٹ اعتراضات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بعد اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

(جاری ہے)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اجلاس میں ایف بی آر کے کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں بے ضابطگیوں سے متعلق 43 ارب روپے کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اس موقع پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ محکمہ کسٹم نے برآمد کنندگان کی جانب سے جمع کی جانے والی بینک گارنٹی اور پوسٹ ڈیٹ چیکس کیش نہیں کئے اور ادارے کو اکیس ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا اس طرح ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے مختلف برآمد کنندگان کے ذمے واجب الادا سات ارب چھیاسٹھ کروڑ چھتیس لاکھ روپے سے زائد رقومات کی وصولی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں اس طرح مختلف برآمد کنندگان کو غیرضروری ایس آر اوز کے تحت پانچ ارب 80 کروڑ 60لاکھ روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا ہے جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ نومبر کے مہینے میں ہونے والی ڈی اے سی کے بعد وصولیوں کیلئے دن رات کوششیں کی ہیں اور بعض آڈٹ اعتراضات کے معاملے میں بہت زیادہ وصولیاں کی ہیں جن کو ہم آڈٹ حکام کے ساتھ ویری فائی کرلیں گے انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں سے بہت زیادہ ایس آر اوز ختم کردی ہیں انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر جب بھی کسی کو نوٹس دیتی ہے تو وہ واجب الادا رقم اداکرنے کی بجائے عدالتوں میں چلتے جاتے ہیں اور سال ہا سال کیسز چلتے ہیں انہوں نے انکشاف کیا کہ اس وقت ایف بی آر کے عدالتوں میں چار سو سے پانچ سو ارب روپے کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں اور بڑے بڑے کیسز میں ہارے پاس وکلاء کو زیادہ فیس دینے کا اختیار نہیں ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ میں مقدمات کو جلد نمٹانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اس موقع پر ایف بی آر کی خاتون ممبر نے بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ آڈٹ کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ اعتراضات کا مکمل جواب قانون کے مطابق پیش کرتے ہیں مگر آڈیٹر صاحبان ان کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جس پر آڈیٹرجنرل نے کہا کہ اگلے ڈی اے سی میں ادارے کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل بھی شرکت کرینگے تاکہ معاملات حل ہوسکیں انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے دی جانے والی ایس آر اوز میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے اور ایف بی آر حکام ایسی چیزیں بھی ایس آر ا و میں شامل کردیتے ہیں جو وزارت تجارت کے لسٹ میں نہیں ہوتی ہیں جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بہت زیادہ ایس آر اوز کو ختم کردیا گیا ہے پہلے یہ ہوتا تھا کہ کسی ہوٹل کے فرنیچر کی رعایت کا فائدہ دیگر سامان پر ہی دیا جاتا تھا مگر اب یہ ختم کردیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ مشینری کے بارے میں انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کی جانب سے جو وضاحتیں دی جاتی ہیں وہی تسلیم کی جاتی ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ معاملات پی اے سی میں حل نہیں ہونگے اس سلسلے میں دوبارہ ڈی اے سی کروالیں اور اس کی رپورٹ پی اے سی میں پیش کریں ۔

متعلقہ عنوان :